• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی سے رحیم یار خان کے زمینی سفر نے ایک بار پھر میرا یقین محکم کردیا ہے کہ پاکستان کا مستقبل محفوظ بھی ہے اور روشن بھی۔ شہر وسعتوں سے ہم کنار ہورہے ہیں۔ ہریالی بھی بڑھ رہی ہے۔ مارکیٹیں بھی پھیل رہی ہیں۔ نوجوانوں کے چہرے تمتما رہے ہیں۔ بزرگوں کی پیشانیاں دمک رہی ہیں۔ شاہراہوں پر ٹرالر، ٹرک مال مصنوعات سے بھرے سینکڑوں کی تعداد میں ایک طرف بڑے ضبط سے مسافت طے کررہے ہیں۔ کہیں کوئی کارخانے چل رہے ہیں جو ملک کی ضروریات کی پیداوار میں مصروف ہیں۔ تب ہی ٹرکوں پر سامان لدا ہے۔ بعض طویل ٹرالروں پر تو کارخانوں کی مشینری بھی سفر کرتی دکھائی دیتی ہے۔ سڑک جہاں صنعت کی روانی اور فراوانی کے مظاہر پیش کرتی ہے وہاں سڑک کے دونوں طرف فصلیں لہلہا رہی ہیں۔ کہیں کیلے کے پودوں کے سلسلے ہیں، کہیں کپاس کے۔ رنگا رنگ اوڑھنی میں ہماری بیٹیاں مائیں روئی چُن رہی ہیں۔ کہیں روئی چنی جا چکی۔ کپاس کے پودے کاٹ کر گدھا گاڑیوں پر لادے جارہے ہیں۔ گندم کی بوریوں کے ڈھیر، ان پر ترپالیں پڑی ہوئیں۔ کسی ٹرک پر تازہ تازہ چنی روئی لدی ہے۔ اس میں سے بنولہ بھی نکلنا ہے۔ بنولے کا تیل بھی۔ شہروں کی آبادیاں بڑھ رہی ہیں۔ عام دکانوں کے ساتھ ساتھ شاپنگ سینٹر، موبائل فون کی مارکیٹیں، جوتوں، کپڑوں، کھانے پینے کے سارے نئے برانڈز بھی پہنچ چکے ہیں۔ روایتی دکانوں کی جگہ بڑے بڑے شیشوں والے شو روم، وردیوں میں سیلز مین۔

مجھے تو یہ ساری گہما گہمی، چہل پہل دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے۔ ایک گو نہ دلی تسکین۔ مایوسی کے دیوتا جو رات دن تباہی بربادی کا واویلا مچا رہے ہوتے ہیں ان کی اپنی آنکھیں، ان کے کیمرے کی آنکھیں شاید یہ ہریالی، یہ رونقیں نہیں دیکھ سکتیں۔ محنت کشوں کے بازوئوں کی توانائیاں ان کو نظر نہیں آتیں۔ ان کے ماتھوں پر عزم کے مشاہدے سے وہ معذور ہیں۔

رحیم یار خان کے ایک ہال میں نوجوان طلبا و طالبات، بزرگوں کا اجتماع ہے۔ شہر میں جو بھی کسی شعبے کی اہم شخصیت ہے، یہاں موجود ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب، ڈپٹی کمشنر جمیل احمد جمیل، شیخ زید میڈیکل کالج کے پرنسپل، پروفیسر ڈاکٹر ظفر حسین تنویر، اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر ربانی، خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر محمد منیر احمد، چیمبر آف کامرس کے چوہدری افتخار، شہر کے کالجوں، اسکولوں کے سربراہ، رحیم یار خان ادبی فورم کے صدر جبّار واصف۔ موضوع ہے: ’پاکستان کو کامیاب ملک بنانے میں آپ کا علاقہ کیا کردار ادا کرسکتا ہے‘۔ پنجاب کے 18سے 28سال کے نوجوانوں نے اس موضوع پر مضامین لکھے ہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا۔

نہیں ناامید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اقبالؔ کو جوانانِ عجم سے بڑی توقعات تھیں۔ پاکستان کے نوجوان ان کے خواب کی تعبیر بن رہے ہیں۔ مجھے تو بڑی تسکین ہوتی ہے۔ اقبالؔ نے ہی کہا تھا۔

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی

یا بندۂ صحرائی یا مرد کُہستانی

لورا لائی میں ہم نے مضمون نویسی کے مقابلوں کی بدولت مردانِ کہستانی دیکھے۔ اب رحیم یار خان میں بندگانِ صحرائی دیکھ رہے ہیں۔ فتح جنگ سے شیر علی دائم اوّل انعام لے رہے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کی حرا خان دوئم ہیں۔ رحیم یار خان کی عائشہ شوکت سوئم۔ سینکڑوں کی تعداد میں مضامین بھیجنے والے ہمارے آج کے نوجوان ہیں۔ جن کے بارے میں ہم کہہ دیتے ہیں کہ وہ لکھنے پڑھنے سے گریزاں ہیں۔ کتابوں کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ تحقیق نہیں کرتے۔ یہ نوجوان بیٹے بیٹیاں ان سب مفروضوں کو باطل کر رہے ہیں۔ اقبال کی آواز میں ذرا نم کی ضرورت ہے۔ یہ ذرا نم بنیادی طور پر ریاست کا فرض ہوتا ہے۔ پھر یہ ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے۔ اس کے بعد درسگاہوں کی۔ یونیورسٹیوں کو شکایت ہے کہ ان کے بجٹ میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔ وہ دیوالیہ ہو جائیں گی۔ کالجوں کو یونیورسٹیوں سے شکایتیں ہیں۔ خواجہ فرید گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج رحیم یار خان کے پرنسپل کہتے ہیں کہ ہمیں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے طلبا و طالبات کی سیٹیں بڑھانے کی اجازت دے دی ہے مگر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور قدم آگے بڑھانے نہیں دے رہی ہے۔ 1954ء میں قائم ہونے والا یہ کالج اس علاقے میں علم کی روشنی پھیلانے کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ بڑی بڑی نامور ہستیاں یہاں سے فارغ التحصیل ہوئی ہیں۔ اب بھی کئی ہزار طلبا و طالبات یہاں قدیم و جدید علوم کی تحصیل میں سرگرم ہیں۔ میں ان کی آنکھوں میں تجسس اور پیشانی پر چمک دیکھ رہا ہوں۔ اپنے مستقبل کے بارے میں یقین سے سرشار ہو رہا ہوں۔

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخر ِ شب

ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے

لیکن ہمارے حکمرانوں کو یہ یقین کیوں نہیں آتا۔ ان میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو چراغ آخر شب نہیں کہتا۔ پھر یہ سب اس زعم میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم سے پہلے بھی اندھیرا تھا، ہمارے بعد بھی اندھیرا ہوگا۔ اُجالا ہے تو صرف ہمارے ہوتے ہوئے۔ اسی گمان میں وہ مزید اندھیرے پھیلا جاتے ہیں۔ سکھر ملتان موٹر وے بن گیا ہے، بہت خوبصورت۔ میاں نواز شریف یاد آتے ہیں لیکن ابھی اس کا افتتاح ہونا ہے۔ پاکستان میں راستے بہت نئے نئے کھل رہے ہیں۔ فاصلے سمٹ رہے ہیں۔ لوگ آپس میں زیادہ ملیں جلیں گے۔ میں رحیم یار خان کے نوجوان طلبا و طالبات سے یہی عرض کررہا ہوں کہ آپ ہماری طاقت ہیں دولت ہیں۔ ملک بھر کے نوجوانوں کا آپس میں رابطہ ہونا چاہئے۔ بلوچ، پٹھان، سندھی، سرائیکی، پنجابی، کشمیری، بلتی، نوجوانوں کو قریب لانے کے لیے تقریری، تحریری مقابلے ہوں۔ یہ ہمارا مستقبل ہیں۔ ان کے ذہن روشن ہیں۔ انہیں آپس میں ملنے دیں۔ ایک دوسرے کو سمجھیں۔ پھر یہ اپنے پاکستان کو سنبھالیں۔ ہم بزرگوں نے تو تعصبات کو جنم دیا ہے۔ ایک دوسرے سے دور کیا ہے۔ ان نوجوانوں کے ملنے کا اہتمام کریں۔ ملک مستحکم ہوگا۔

تازہ ترین