• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یومِ سر سید کی مناسبت سے 17اکتوبر کے روز پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت اور ہمارے لبرل ہیومن فورم کے اشتراک سے یونیورسٹی میں ایک شاندار اور پُر رونق سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس کا عنوان تھا ’’سرسید: خرد مندوں کے امام‘‘۔ اِس پُر وقار تقریب کی صدارت انسٹیٹیوٹ آف کمیونیکشن اسٹڈیز کی ڈاکٹر نوشینہ سلیم نے کی جبکہ مہمانِ خصوصی تھے معروف صحافی اور دانشور محترم مجیب الرحمٰن شامی۔ دیگر مقررین میں درویش کے علاوہ تھے ڈاکٹر مجاہد منصوری، سجاد میر، یاسر پیرزادہ اور آئی سی ایس کے لیکچرار شبیر سرور۔ جسٹس ناصرہ جاوید اقبال اور پروفیسر شاہینہ آصف برطانوی شاہی جوڑے کی لاہور آمد پر راستے بند ہونے کی وجہ سے پروگرام میں شرکت سے قاصر رہ گئیں جبکہ جناب سہیل وڑائچ کو بیرونِ ملک جانا پڑا بصورتِ دیگر اُنہوں نے بھی شریک ہونا تھا۔ لبرل ہیومن فورم کے نوجوانوں اور ڈویلپمنٹ جرنلزم کے طالبعلموں کی بھرپور شمولیت سے ہال میں بیٹھنے کی گنجائش نہ رہی۔

ایسے پروگراموں میں درویش کی ہمیشہ خواہش ہوتی ہے کہ روایتی سوچ اور تقاریر سے ہٹ کر سوال و جواب کے سیشن کو زیادہ وقت دیا جائے اس لیے کہ نوجوان نسل کے اذہان میں جو سوالات ابھرتے ہیں بزرگوں کا فرض بنتا ہے نہ صرف اُن کا خوش دلی سے سامنا کریں بلکہ کافی و شافی یا مسکت و مدلل جوابات سے بھی نوازیں۔ جس کلچر میں سوال اٹھانے پر قدغنیں ہوں وہ بتدریج بانجھ ہوجاتا ہے جو فکری و تخلیقی طور پر دنیا کو یا اپنی نسلِ نو کو کچھ ڈلیور نہیں کر پاتا۔ زمانہ طالب علمی میں اپنی مادرِ علمی جی سی یونیورسٹی کا یہ سلوگن بہت پسند آیا تھا Courage to know۔ جاننے کی ہمت یا حوصلہ ہی انسان کو سوالات اٹھانے پر آمادہ کرتا ہے۔

درویش کو اوائل عمری کا ایک واقعہ کبھی نہیں بھولا۔ بچپن سے نئی نئی کتابیں اور تحریریں پڑھنے کی بڑی لگن تھی۔ جب پہلی مرتبہ سرسید کو پڑھا تو اپنے دینی مدرسے میں بیٹھے مولوی صاحب کے سامنے باتوں باتوں میں ان کے خاندانِ سادات سئ تعلق کا تذکرہ بھی کر دیا۔ مولانا صاحب گرم ہو گئے اور کہا کہ بھلا ایک پٹھان، سید کیسے ہو سکتا ہے۔ سید احمد تو اُس کا نام تھا ویسے تو وہ خان تھا۔ سوچا کہ حضرت فرما رہے ہیں تو ٹھیک ہی ہوگا لیکن جب مزید پڑھا اور شجرہ نسب ملاحظہ کیا تو وہ مولا علیؓ تک پہنچتا تھا اور یہ بھی واضح ہوا کہ انہیں اور اُن کے خاندان والوں کو جس نوع کے خطابات و القابات مغل دربار سے ملے تھے اسی نوع کے خطابات انگریزی سرکار نے بھی انہیں دے رکھے تھے، جن میں ایک ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب تھا جو اختصار میں محض خاں بن کر رہ گیا۔ آج بھی ہمارے اذہان میں اِن القابات کی جو فضیلت ہے شاید اس میں کچھ انگریز سرکار کا بھی حصہ یا عمل دخل ہے۔ اسی طرح مابعد ’’سر‘‘ کا جو خطاب علامہ اقبال کو بھی ملا اپنے زمانے میں عظیم المرتبت سید احمد کو بھی اس سے نوازا گیا جو اُن کے نامِ نامی اسمِ گرامی سے ایسے جڑا کہ گمان ہونے لگا کہ وہ پیدا ہی ’’سرسید‘‘ کے نام سے ہوئے تھے ویسے آپ کی لوحِ تربت پر ’’اسمہ احمد‘‘ تحریر ہے۔

بہرحال اسی روایتی دینی و مذہبی پسِ منظر میں درویش اپنی اوائل عمری میں سرسید کے ناقدین بلکہ واضح سچائی کے ساتھ سید محترم کے مخالفین میں کسی سے پیچھے نہیں رہا ہے یا صاف لفظوں میں یوں کہیے کہ جمال الدین افغانی کے حلقہ اثر میں تھا۔ یہ بھر پور مطالعہ کی لت تھی جس نے ناچیز کو ان تنگناؤں سے نکال باہر پھینکا۔ علمائے دیوبند اور مولانا مفتی محمود سے ہوتے ہوئے، مولانا مودودی کی تقریباً تمام کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد جب دیگر مدبرین کے ساتھ سرسید کو پوری طرح پڑھا، ان کے تمام ناقدین کے ساتھ افکارِ عالیہ کا تقابلی جائزہ لیا تو سرسید کی فکری بلندی اور منطقی استدلال نے اپنی عظمت کا لوہا منوا لیا اور درویش پکار اٹھا کہ کبھی موقع ملا تو اپنا یہ سفر نامہ کامل کتاب کی صورت نسل نو کے لیے بطور امانت پیش کرے گا جس کا نام ہوگا ’’مولانا مودودی سے سرسید تک‘‘۔

درویش کو اپنے مہربان اور مربی ڈاکٹر جاوید اقبال کی یہ بات کبھی نہیں بھولی جب جدید فلسفے اور قدیمی روایتی کہانیوں کا تقابلی جائزہ لینے کے بعد ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں رزادارانہ اسلوب میں اپنی یہ الجھن رکھی محترم ڈاکٹر صاحب شاید میں کافر ہوگیا ہوں۔ فرمانے لگے’’اس میں گھبرانے والی کونسی بات ہے، میں تو روز کافر ہوتا ہوں اور روز ایمان کی سیڑھیاں بھی چڑھتا رہتا ہوں، کوئی بھی سوچنے سمجھنے والا تخلیقی ذہن جب تحقیق میں جاتا ہے تو انہی منازل سے گزرتا ہے۔ میں جیسا تیسا بھی آج لبرل سیکولر یا کلچرل مسلمان ہوں تو اس کا باعث سرسید کی فکری عظمت اور ان کی تفسیر القرآن ہے‘‘ پھر ڈاکٹر جاوید اقبال نے ناچیز کو تفسیر کے متعلقہ حصے نکال کر دکھائے اور کہا کہ انہوں نے عقل و شعور اور نیچر کو کس خوش اسلوبی سے منطبق فرمایا ہے۔

سرسید کا نام آتے ہی فوری طور پر جو چیز ذہن میں آتی ہے وہ تعلیم ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کی دیگر شعبہ جات میں خدمات نہیں ہیں یا وہ انگریزی کی حمایت کرتے ہوئے اردو کی مخالفت کر رہے تھے۔ اردو زبان کے لیے اُن کی خدمات کا الگ سے ایک باب ہے کہ انہوں نے کس طرح سلیس اردو کے ذریعے عوامی ابلاغ کو بہتر بنایا اور کتنا زبردست دبستان کھڑا کیا، درحقیقت وہ زمانی تقاضوں کی مناسبت سے ایشو اٹھا رہے تھے۔ سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے بعد انگریزوں کی حکومت قائم ہو گئی تو انگلش سرکاری زبان قرار پائی اگر مسلمان نوجواں اسے نہ سیکھتے اور ماضی پر اڑے رہتے تو پسماندہ قوم بن کر رہ جاتے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین