• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے مجھے محلہ شریف آباد میں تحصیل بھلوال ضلع سرگودھا کے باطی خان نے فون کرکے اپنی دکھ بھری داستان سنائی۔اس نے بتایا کہ اس کی بیٹی ارم ناز کی جب عمر بیس برس تھی تو اس کو ناک میں غدود کے معمولی آپریشن کے لئے ڈی ایچ کیو ہسپتال سرگودھا لے کر گیا۔ دوران آپریشن ڈاکٹروں کی غفلت سے ارم ناز کومے میں چلی گئی۔ یہ واقعہ30-01-2008ء کا ہے۔ پچھلے چھ برس سے اس کی بیٹی مسلسل کومے میں ہے اور خوراک والی نالی لگی ہوئی ہے اور بچی بے ہوش پڑی ہوئی ہے۔ عدالت عالیہ کے حکم پر تھانہ فیکٹری ایریا سرگودھا میں ڈاکٹروں اور دیگر عملے کے خلاف کیس رجسٹرڈ ہوا مگر پانچ سال سے زائد ہوگئے ہیں انصاف نہیں ملا۔
یہ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ و زیر اعلیٰ پنجاب میں میاں شہباز شریف کے واضح حکم کے باوجود محکمہ صحت اور متعلقہ ایم ایس ادویات اور علاج کے سلسلے میں سہولیات نہیں دے رہا۔ ملالہ یوسف زئی پر دہشتگردوں نے حملہ کیا تو رحمان ملک نے اس کے علاج کے لئے شور مچادیا اور ارم ناز کو ڈاکٹروں کی غفلت نے زندگی بھر کے لئے معذور کردیا اس پر کوئی والی ڈی اے ، کوئی سیاسی رہنما، کوئی سول سوسائٹی میدان میں نہ آئی۔ آج والی ڈی اے غریب مریضوں کے حقوق اور سہولیات کے لئے سیاسی نعرہ لگارہی ہے ۔وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرکے والی ڈی اے نے یہ تاثر دیا کہ وہ سب کچھ تو غریب مریضوں کے لئے کررہی ہے ذرا والی ڈی اے یہ تو بتائے کہ جب والی ڈی اے بنائی گئی تھی تب انہوں نے اپنے منشور میں کہاں غریب مریضوں کا ذکر کیا تھاجب ینگ ڈاکٹروں کی غفلت سے شاہدرہ کی ایک مریضہ کے مرنے پر ان کے خلاف کارروائی کی گئی تو نوجوان ڈاکٹرنے والی ڈی اے بناڈالی۔ اب ارم ناز پچھلے چھ برس سے کومے میں پڑی ہے اس پر کس نے آواز بلند کی ہے؟
ایک ارم ناز ہی کومے میں نہیں پوری قوم ہی کومے میں ہے۔ کومے میں انسان بالکل بے ہوش ہوجاتا ہے اسے اپنے ارد گرد کا بالکل ہوش نہیں ہوتا۔ وہ دنیا سے بے خبر ہوجاتا ہے یہ قوم65برس سے کومے میں ہی تو ہے۔ ایسے لوگوں کو منتخب کرتی ہے جو منتخب ہو کر ایک ایسے کومے میں چلے جاتے ہیں جہاں جاکر ان کو اپنے لوگوں کے مسائل، دکھ درد اور مریضوں کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ یہ قوم کومے میں نہیں تو کیا ہوش میں ہے۔ دو مرتبہ کوئٹہ میں دو سو سے زائد لوگ ماردئیے گئے ،سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں ، ایک مدت سے کراچی میں بے گناہ افراد کو مارا جارہا ہے۔ کوئٹہ کے حالات دن بدن بگڑتے جارہے ہیں۔ حکمران بھی تو کومے میں ہیں۔ رحمان ملک کا یہ کہنا کہ اس ملک کے حالات خراب کرنے کے لئے سکرپٹ لکھ دیا گیا۔ دشمن اسے پورا کرکے دم لیں گے تووزیر داخلہ کو سکرپٹ کے رائٹر کا پتہ بھی توہوگا پھرکیوں نہیں بتاتے کہ اس سکرپٹ کا لکھنے والا کون ہے؟
شعبہ اعصاب و پٹھہ کے ماہرین پروفیسر ڈاکٹر نصراللہ اور ڈکٹر عامر اکرام کا کہنا ہے کہ کومے میں جانے والے شخص کے احساسات، جذبات، سوچنے سمجھے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ آج ہماری قوم بھی تو کومے میں ہے۔ ایک طرف کوئٹہ کے حالات ہیں تو دوسری طرف ویلنٹائن ڈے منایا جارہا ہے۔ اسلام آباد اور لاہور میں بھرپور تقریبات ہوئیں، کسی کو کراچی اورکوئٹہ کے واقعات پر ذرا برابر دکھ نہیں۔ پہلے بھی کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے بے گناہ لوگوں کی ہلاکت پر دھرنے دئیے گئے اب پھر دھرنے دئیے جارہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے محبت کا دن ہے یہ کیسی محبت ہے کہاں یہاں لو گ اپنے ہی لوگوں کوماررہے ہیں ۔دنیا میں طویل ترین کومے میں الین اسپیوسٹیوایک بچی رہی ہے۔ یہ بچی 6اگست1941ء کو اپنڈکس کے آپریشن کے لئے ہسپتال لائی گئی۔ اس کو جنرل انستیھیزیا دیا گیا پھر وہ کبھی ہوش میں نہ آئی۔37برس اور ایک سو گیارہ دن کومے میں رہنے کے بعد1978ء میں کومے ہی میں مرگئی۔ دنیا کے کئی نامور اور معروف لوگ بھی کومے میں گئے۔ کچھ بچ گئے اور کچھ مرگئے۔ میرے سامنے یکم جولائی1949ء کا ریڈیو پاکستان کا پندرہ روزہ رسالہ آہنگ پڑا ہے۔ اس کے پہلے صفحے پر صاحبزادہ مرزا اعتزازالدین احمد انسپکٹر جنرل سپیشل پولیس کی ریڈیو سے نشر کردہ تقریر ہے جس کا عنوان ہے”عوام کے دشمن ،بددیانت اہلکار “وہ کہتے ہیں کہ”آج کل رشوت کا لفظ ہر خاص و عام زبان پر ہے اور یہ کچھ غلط بھی نہیں۔ پہلے اس زمرے میں بالعموم پولیس والے شمار ہوتے تھے یا محکمہ مال کے پٹواری اور عدالت کے ناظر اور بیش کار، مگر اب یہ وباء اس قدر پھیلی ہے کہ اس میں قریباً ہر چھوٹا بڑا مبتلا ہے۔ پاکستان بنتے ہی لوٹ مار کا بازار گرم ہوا کہ بہت سوں نے خوب ہاتھ رنگے اور حب وطن ،”پاس احباب ،ناموس ملک اور احترام دین سب ہی کچھ یکسر بھلا بیٹھے“ ۔
ذرا سوچیں کہ ابھی پاکستان کے قیام کو صرف ایک سال اور گیارہ ماہ بھی نہیں ہوئے تھے تو یہ قوم اور اس کے افسران کرپشن کے کومے میں چلے گئے۔تمام پولیس کے اعلیٰ افسران رشوت کے خاتمے کی بات کرتے ہیں لیکن کیسی دلچسپ حقیقت ہے کہ سی ایس ایس کا امتحان، بسوں، ویگنوں اور موٹر سائیکلوں پر جاکر دینے والے آج ٹیکسٹائل ملز، بڑے بڑے فارم ہاؤسسز اور زرعی رقبہ جات کے مالک کیسے بن گئے؟ لاہور کے مشہور کلب میں دوپہر اوررات کو ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور پولیس آفیسر جس طرح موجیں مارتے نظر آتے ہیں تو کبھی کسی نے ان سے سوال کیا ہے؟ بھٹی کون سی آسمانی تنخواہ تمہیں زندگی بھر ملتی رہی ہیں جو تمہارے بچے بھی بیرون ممالک اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے رہے ڈیفنس اور ماڈل ٹاؤن میں کوٹھیاں بھی بن گئی ہیں۔ ہر سال دنیا بھر کی سیریں بھی کرتے رہے ہو۔
انقلاب کی باتیں کرنے والے ذرا اپنے ہمسایہ ملک ایران پر ایک نظر تو ڈالیں۔ عوام کی قسمت جاگے گی کہ بینرز لگانے والے ذرا ایران کے صرف ہیلتھ سسٹم پر ایک نظر تو ڈالیں صورتحال خود بخود واضح ہوجائے گی۔
1979ء کے انقلاب ایران سے قبل ایران میں حفاظتی ویکسیئن کا دائرہ کارصرف30فیصد تھا اب 95فیصد سے زیادہ ہے۔ ملکی ضرورت کے مطابق ادویات کی تیاری پہلے 25فیصد تھی ا ور اب95فیصد ہے۔1979ء سے قبل پولیو 25فیصد تھا، اب صفرہے۔ پہلے ا وسط عمر57سال تھی اب70.5سال ہے۔اعضاء کی پیوندکاری کے تمام آپریشن جس میں جگر، پھیپھڑے ،دل ،ہڈیوں کے گودے، قرینہ چشم اور حرام مغز کا ایک بھی آپریشن نہیں ہوتا تھا۔ اب انقلاب کے بعد سال میں دو ہزار آپریشن پیوند کاری کے ہوتے ہیں۔1979ء تک گردوں کی پیوندکاری کے صرف پندرہ آپریشن ہوئے تھے اب17000آپریشن ہوتے ہیں۔ غیر ممالک میں علاج کی غرض سے جانے والوں کی تعداد گیارہ ہزار افراد سالانہ تھی، اب کوئی شخص علاج کے لئے باہر نہیں جاتا۔ تمام سہولیات اور جدید آپریشن ایران میں ہورہے ہیں۔ یہ ہوتا ہے انقلاب، ہمارے ہاں تو انقلاب سیاسی رہنماؤں کی زندگیوں میں آتا ہے۔ عوام کل بھی غریب تھے آج بھی غریب ہیں اورغریب سے غریب تر ہی ہوتے جائیں گے اور پورے ملک میں ترقی کا عمل بھی اس وقت صرف صوبہ پنجاب میں ہورہا ہے۔ سندھ میں صحت کی سہولیات کا تو بیڑہ غرق ہوچکا ہے۔
پورے ملک میں کوئی کوما سنٹر نہیں چنانچہ اس ملک میں جو سینکڑوں افراد لمبے کومے یا مختصر عرصہ کے کومے پڑے ہیں ان کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔ والی ڈی اے کو اس پر بھی کام کرنا چاہئے۔اب والی ڈی اے غریب مریضوں کی فلاح و بہبود کی بات خادم پنجاب کے سامنے کہہ کر خود بھی اس بات کی ذمہ دار ہوچکی ہے کہ وہ آئندہ ہڑتال نہیں کرپائیں گے کیونکہ ہڑتال سے غریب مریض ہی تنگ ہوتے ہیں چنانچہ ان شعبوں میں جہاں پر ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے ان کے لئے اب حکومت اور والی ڈی اے دونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا اور خادم پنجاب کو ارم ناز کو بہترین علاج کی سہولیات دینے کے لئے دوبارہ احکامات جاری کرنے چاہیں اور میڈیکل بورڈ بنانا چاہئے تاکہ اس بچی کی وجہ سے پورے خاندان یعنی باقی تین بیٹوں اور بیٹے کی جو تعلیم ادھوری رہ گئی ہے وہ مکمل ہوسکے اور یہ خاندان اذیت ناک عذاب سے باہر آسکے اگر حکومت اور ڈاکٹرز اس بچی کے کیس کے بارے میں دلچسپی رکھتے ہوں تو باطی خان سے 0345-5960769پر رابطہ کرسکتے ہیں۔ قوم تو اس لئے بھی کومے میں چلی گئی، کیا حکمران ایسے ہوتے ہیں۔
تازہ ترین