• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی سال دو سال پہلے دہشت گردی کے واقعات کے تناظر میں حکومت نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس بات کی تشہیر شروع کی کہ تمام شہری اپنے نام پر جاری ہونے والی اور چلنے والی غیر قانونی موبائل سمز کو متعلقہ کمپنیوں کے دفاتر میں جا کر بلاک کرائیں کیونکہ ایسی سمز کو غلط لوگ استعمال کر رہے ہیں۔ سو ایک ذمہ دار شہری کا کردار نبھانے کی کوشش میں، میں بھی متعلقہ کمپنیوں کے دفاتر میں پہنچ گیا۔ جب وہاں جا کر اپنے نام پر چلنے والی سمز کی تعداد معلوم کی تو اوسان خطا ہو گئے، اللہ کا شکر کیا کہ بروقت ہوش آ گیا (مجھے بھی اور حکومت کو بھی) اور اپنے نام پر چلنے والی تمام غیر قانونی سمزبلاک کروادیں۔ کچھ عرصہ بعد پھر کہیں اخبار یا ٹی وی سے معلوم ہوا کہ غیر قانونی سمز بند کرانا انتہائی ضروری ہے اور اگر اس میں کوئی کوتاہی کرے گا تو وہ بڑی مشکل میں پھنس سکتا ہے، میں نے پھر پہلے والی مشق دہرائی اور اپنے نام پر چلنے والی سمز کی تعداد جان کر ایک دفعہ پھر اوسان خطا ہو گئے۔ اسی طرح مزید کچھ عرصہ گزرنے کے بعد میں نے اوسان خطا ہونے کی ہیٹرک کر لی۔ کوئی مہینہ دو مہینے پہلے پی ٹی اے کے دےئے گئے نمبر سے اپنے نام پر چلنے والی سمز کی تعداد معلو م کی تو پھر وہی ہوا، ایک دفعہ پھر تمام کمپنیوں کے دفاتر میں جا کر اپنے نام پر چلنے والی سمز بلاک کرائیں۔ اس سال کے آغاز میں پی ٹی اے نے موبائل کمپنیوں کے علاوہ دیگر جگہوں سے سمز کی فروخت پر پابندی عائد کر دی تو میں نے بھی سکھ کا سانس لیا کہ اب شاید یہ مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن دو چار دن پہلے ایک نیا کنکشن لینے گیا تو پھر مجھے بتایا گیا کہ آپ کے نام پر چلنے والی سمز کی تعداد پی ٹی اے کی مقرر کردہ تعداد سے زیادہ ہے اس لئے آپ نئی سم نہیں لے سکتے جبکہ میرے استعمال میں اصل سمز کی تعداد اس مقرر کردہ تعداد سے کم ہے۔ خیر ایک دفعہ پھراپنے نام پر چلنے والی غیر قانونی سم بلاک کرانے کا فارم بھر کر دے دیا۔میرے اور آپ کے نام پر پہلے اور آئندہ چلنے والی غیر قانونی سمز کا اگر کوئی غلط استعمال ہو جائے تو ہماری کیا سیکورٹی ہے؟ کچھ بھی نہیں۔
چند روز پہلے نادرا کے بارے میں سننے میں آیا کہ اسمارٹ کارڈز والی اسکیم کو ختم کیا جا رہا ہے کیونکہ اس سے شہریوں کی حساس معلومات چوری ہونے کا خدشہ ہے۔اس وقت پاکستان کے تقریباً تمام شہری انٹرنیٹ پر گوگل، یاہو ، ہاٹ میل وغیرہ جیسی امریکی کمپنیوں کے ای میل اکاؤنٹ استعمال کررہے ہیں پھر سوشل میڈیا میں تمام شہری فیس بک ، ٹویٹر جیسی امریکی کمپنیوں کی سہولتوں کو استعمال کرتے ہیں۔جو لوگ اپنی ویب سائٹس بناتے ہیں اور ان کے اکاؤنٹ استعمال کرتے ہیں ان کی ویب اسپیسنگ اور ہوسٹنگ کیلئے بھی شاید اسی طرح امریکی کمپنیوں کی سروسز سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ امریکی قوانین کے تحت امریکی متعلقہ اداروں کو ان کمپنیوں کے صارفین کی معلومات تک رسائی حاصل ہے۔ پاکستان کی اہم شخصیات میں سے جن کو میں جانتا ہوں وہ تمام انہی کمپنیوں کے ای میل اکاؤنٹ استعمال کرتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے ملک کی تمام اہم شخصیات کی وہ تمام معلومات جو ان ای میلز میں موجود ہیں ان تک امریکی متعلقہ اداروں کی رسائی ہے ۔ اسی طرح ہمارے تمام شہریوں کی ذاتی اور کاروباری نوعیت کی تمام معلومات جو ان ای میلز کے ذریعے ٹرانسفر ہوتی ہے، اس تک امریکی متعلقہ اداروں کی رسائی ہے۔دوسرے لفظوں میں اگر امریکی ادارے کسی بھی وجہ سے آپ کی یا میری نگرانی کرنا چاہیں تو ان کمپنیوں کے ذریعے وہ آسانی سے کر سکتے ہیں۔
ہمارے اہم ترین قائدین بیرون ملک رہنا بہت پسند کرتے ہیں ۔ بہت سے تو ایسے ہیں جو اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد کا وقت دوسرے ملکوں میں ہی گزارتے ہیں اور بعض تو پاکستان آتے ہی صرف حکومت کا حصہ بننے کیلئے ہیں اور حکومت سے فارغ ہونے کے بعد واپس بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ ان تمام لوگوں کے پاس کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کی حساس یا حساس ترین معلومات ہوتی ہیں اور جیسے ہی یہ لوگ پاکستان کی حدود سے باہر جاتے ہیں تو اپنے میزبان ممالک کے سیکورٹی اور خفیہ اداروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔جب یہ لوگ ان ملکوں میں بیٹھ کر پاکستان میں رابطے کرتے ہیں تو ان کی تمام گفتگو، تمام ای میلز، تمام پیغامات کی نگرانی ہو رہی ہوتی ہے۔
مندرجہ بالا تمام باتیں سامنے آنے کے بعد آپ کا اپنی اور اپنے ملک کی اہم معلومات کی راز داری کے بارے میں کیا خیال ہے؟انفارمیشن ٹیکنالوجی جہاں ہمارے اور ہمارے ملک کے لئے بہت سی سہولتیں لے کر آئی ہے وہیں اس نے ہمیں اور ہمارے ملک کو دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بھی بنا دیا ہے، ہمیں دوسروں کے سامنے ننگا بھی کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف ہمارے ملک میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں عام شہری عدم تحفظ کا شکار ہے اور اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں کہ اس کے نام پر کیا کچھ ہو رہا ہے اور اس کی انتہائی ذاتی نوعیت کی معلومات کس طرح دوسروں کے رحم و کرم پر ہیں، وہیں دوسری طرف ہماری حکومتی سطح کی انتہائی اہم اور حساس معلومات تک کس طرح دوسرے ملکوں کی اتنی آسانی سے رسائی ہے۔ بالخصوص امریکہ ، برطانیہ ، سعودی عرب اور یو اے ای کی۔ یہ سو چ کر بھی جھرجھری آتی ہے۔آپ کا کیا خیال ہے کہ دیگر ممالک کا بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے یہی حال ہے؟ شاید ایسے ممالک بہت ہی کم ہوں گے جن کا اپنا اور ان کے شہریوں کا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے عدم تحفظ اس قدر زیادہ ہو گا۔اگر ہم چین کی مثال لیں تو وہاں اس میدان میں ملکی سطح پر اور شہریوں کی سطح پر تحفظ کا معیار بہت زیادہ بہتر ہے۔ چین میں بھی ہمارے ملک کی طرح جگہ جگہ موبائل سمز دستیاب ہیں لیکن ان کا نظام اتنا موثر ہے کہ وہاں ہر چار مہینے کے بعد آپ کے نام پر دس پندرہ غلط سمز نہیں بک جاتیں۔اسی طرح چینی حکومت نے اپنے شہریوں کی معلومات کی راز داری اور ملکی حساس معلومات کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اپنے شہریوں کو ای میلز اور سماجی رابطے کیلئے ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی ہیں لیکن وہ تمام سہولتیں چین کی لوکل کمپنیوں کی طرف سے مہیا کی جاتی ہیں جن کی معلومات تک چینی قوانین کے تحت چینی متعلقہ اداروں کو رسائی حاصل ہے اور کوئی دوسرا ملک ان تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا ۔آپ کو چین میں کوئی چینی گوگل ، یاہو، ہاٹ میل وغیرہ یا پھر فیس بک ، ٹویٹر وغیرہ استعمال کرتا ہوا نظر نہیں آئے گا بلکہ تمام چینی ان کی متبادل چینی کمپنیوں کی سہولتیں استعمال کرتے ہیں۔چین کا کوئی شہری جیسے ہی کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرتا ہے اس کی چینی شہریت ازخود منسوخ ہو جاتی ہے۔ سو وہاں پر قائدین کے دوسرے ملکوں میں سال ہا سال قیام، دوسرے ملکوں کی شہریت وغیرہ کی وجہ سے حساس معلومات کے لیک ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چین کے حوالے سے اس طرح کی صورتحال کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ان کا کوئی سابق آرمی چیف جس کے پاس ملک کی تمام حساس ایٹمی معلومات ہوں وہ امریکی اور برطانوی خفیہ اداروں کے چھتری کے نیچے اپنی زندگی کے دن پورے کر رہا ہو۔ایک طرف خود مختاری اور خود انحصاری پر یقین رکھنے والے ممالک اور دوسری طرف باجگزاری اور دوسروں کی محنت پر انحصار کرنے والے ممالک میں حد امتیاز بڑی واضح ہے۔کاش ہم بھی اپنے ملک کو دوسری فہرست سے پہلی کی طرف سفر کا آغاز کرتا ہوا دیکھ پائیں۔
تازہ ترین