• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عشق میں انسان کی بینائی چلی جاتی ہے مگر عاشق کو متواتر جھٹکے پڑیں تو بینائی واپس بھی آ جاتی ہے، ہم سب کو نئے خیالات کا خوشدلی سے خیر مقدم کرنا چاہئے لیکن یہ خیالات جب بجلی کے جھٹکے جیسے محسوس ہوں تو اُن پر نظر ثانی کر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ آج کے جدید یا کہہ لیں تعلیم یافتہ خاندانوں میں اس خیال کا پُرجوش طور پر خیر مقدم کیا گیا کہ بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ آپ اگر انہیں ڈانٹیں گے تو ان کی شخصیت کی نشوونما رک جائے گی بلکہ ان کی شخصیت مسخ ہو کر رہ جائے گی۔ یہ خیال مغرب سے آیا اور ہمارے ڈراموں میں بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ ماں باپ کو بے تکلف ہوتے دکھایا جانے لگا۔ میں نے ڈراموں میں تو نہیں ایک مخصوص طبقے میں یہ بے تکلفی دیکھی ہے۔ کسی زمانے میں یہ بے تکلفی اور وہ بھی ایک حد تک صرف ماں اور بچوں میں ہوتی تھی، باپ کی حیثیت گھر میں ایک بدمعاش کی تھی جس کا نام، ماں بچوں کو ڈرانے دھمکانے کیلئے لیتی تھی ’’تمہارے ابو آلیں، تمہاری پٹائی کروائوں گی‘‘ وغیرہ وغیرہ، حالانکہ باپ بھی اپنے بچوں سے اتنی ہی محبت کرتا تھا جتنی ماں کرتی تھی۔ باپ بچوں کو صرف اُس وقت ڈانٹتا تھا جب وہ کوئی بہت زیادہ غلط حرکت کرتے تاہم بچوں کی کھچائی کی نوبت سال میں دو تین دفعہ سے زیادہ نہیں آتی تھی۔ میرے والد ماجد صاحب مجھ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ اُن کی محبت میں رکھ رکھائو کا ایک دلچسپ نکتہ یہ تھا کہ وہ میری تحریروں کی مقبولیت سے بہت خوش ہوتے لیکن زبان سے کبھی اظہار نہ کرتے لیکن جب میں دوچار دن تک کالم نہ لکھتا تو مجھے بلاتے اور کہتے ’’کیا بات ہے، آج کل تمہاری خرافات شائع نہیں ہو رہیں‘‘ اور میں ان کی تعریف کے اس انداز سے بےحد محظوظ ہوتا۔

آج کل گھروں میں باپ کی حیثیت گھر کے ایک عام فرد کی سی ہے۔ دنیا کے تمام نظاموں میں کسی ایک شخص کو ویٹو پاور حاصل ہوتی ہے جس سے وہ نظام رواں دواں رہتا ہے اور اس میں ناہمواری نہیں آتی مگر ہمارے گھرانوں میں باپ کے پاس اب ویٹو پاور تو کیا سرے سے پاور ہی کوئی نہیں رہی۔ موضوع خشک سے خشک تر ہوتا جا رہا ہے، اسے ’’تر‘‘ کرنے کے لئے یہ چٹکلہ سن لیں کہ ایک شخص بیمار ہوا تو اپنے بیٹے سے کہا ’’مجھے ڈنگر (جانور) اسپتال لے جائو‘‘ بیٹا، حیران ہوکر بولا ’’آپ تو انسان ہیں، ڈنگر اسپتال کیوں جانا چاہتے ہیں‘‘ باپ نے جواب دیا ’’بیٹے میں کہاں کا انسان ہوں، صبح اٹھتا ہوں تو گھوڑے کی طرح ہوتا ہوں، سارا دن گدھوں کی طرح کام کرتا ہوں، شام کو گھر آتا ہوں تو میرے ساتھ کتوں ایسا سلوک ہوتا ہے اور رات کو میں بھینس (بیوی) کے ساتھ سو جاتا ہوں، بس تم مجھے ڈنگر اسپتال لے جائو۔ تفنن برطرف، فی الحال صورتحال یہ تو نہیں ہے لیکن بچے اب تمام بندشوں سے آزاد ہوتے جا رہے ہیں اور جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کی جہاں اور بہت سی وجوہات ہیں وہاں اب ان گھرانوں کے بچے بھی ملوث نظر آنے لگے ہیں جنہیں گھر میں روک ٹوک کرنے والا کوئی نہیں۔ چلیں، یہ تو ایک انتہائی صورت ہو گئی مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جن گھروں میں محبت اور بدتمیزی میں حدِ فاصل قائم نہیں کی گئی وہاں والدین پوری طرح بچوں کے ’’تھلے‘‘ لگ گئے ہیں، پہلے بچوں کے دلوں میں والدین کا خوف ہوتا تھا اب والدین بچوں سے ڈرتے ہیں۔ والد یا والدہ کے گھر آنے پر کوئی بچہ کھڑے ہو کر ان کا خیرمقدم نہیں کرتا، ان کے لئے نشست بھی خالی نہیں کرتا، وہ بیمار ہو جائیں تو انہیں زیادہ تشویش نہیں ہوتی، مر جائیں تو دکھ نہیں ہوتا جو ’’جابر‘‘ والدین کے مرنے پر ہوتا تھا جبکہ جن گھروں میں ابھی تک اعتدال کا ماحول نظر آتا ہے وہاں بچے اور والدین ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ میں تین افراد کے بچوں سے بہت متاثر ہوں، ایک خاور نعیم ہاشمی جو اپنے والد نعیم ہاشمی کی برسی برس ہا برس سے منا رہے ہیں، دوسرے ایک صنعتکار تھے عطاء اللہ صاحب، اُن کے بچے اُن کی برسی پر اخبارات میں محبت بھرا اشتہار دیتے ہیں اور تیسرے میرے عزیز دوست مرحوم حسن رضوی کی بیوہ جو آج تک حسن کی برسی پورے اہتمام سے مناتی ہیں جبکہ جن غیر معتدل خاندانوں کا میں نے اوپر کی سطور میں حوالہ دیا ہے، اُن کے ہاں باہمی رابطے کا فقدان ہی پایا ہے۔ حالانکہ انہوں نے باہمی رابطے کی غرض ہی سے گھر میں ’’دوستانہ‘‘ ماحول بنایا ہوتا ہے مگر یہ ماحول کئی صورتوں میں مطلوبہ نتائج مہیا کرتا نظر نہیں آتا۔

اب آخر میں صرف ایک بات! برصغیر پاک و ہند بلکہ دنیا کے تمام ممالک کی تاریخ ساز شخصیات اعتدال یعنی شفقت اور دبائو کے ماحول ہی میں پروان چڑھی ہیں کہ اس زمانے میں ابھی تک متذکرہ فلسفہ جڑ نہیں پکڑ سکا تھا، چنانچہ مجھے یہ ماننے میں دشواری پیش آ رہی ہے کہ قائداعظم، علامہ اقبال، گاندھی جی، شیرِ بنگال مولوی فضل حق، سرسید احمد خاں، مولانا حسرت موہانی اور اس دور کی دیگر اہم شخصیتوں میں سے والدین کی سختی کے نتیجے میں کس کی شخصیت مسخ ہوئی؟ میرے خیال میں کسی کی بھی نہیں، سو وہی بات جو میں نے کالم کے شروع میں کہی تھی اور اس کے بعد بھی بار بار کہی ہے کہ والدین اور بچوں کے مابین اعتدال کا رویہ ہی بہتر نتائج پیدا کر سکتا ہے، کوئی حرج نہیں اگر ہم کسی فیشن ایبل رویے کو بھی چھان پھٹک کر دیکھیں اور پھر اس کے بعد اپنے راستے متعین کریں۔

تازہ ترین