• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جہاں تک سرسید کی تعلیمی خدمات کے علاوہ دیگر سیاسی، مذہبی یا سماجی خدمات کا تعلق ہے وہ بھی کسی طرح سے کم نہیں ہیں۔ انہوں نے زوال پذیری اور پسماندگی کے دور میں یہ ضرور کہا کہ میرے بچو! اب آپ نے پڑھنا ہے اور صرف پڑھنا ہے تاکہ آنے والے کل میں آپ لوگ سیاسی حیثیت میں بہتر مقام حاصل کر سکیں۔ مذہبی خدمات کے لحاظ سے بھی سرسید کو جامد روایتی فکر میں بہتر تبدلیاں لانے کے لیے بڑی جدوجہد کرنا پڑی۔ انہوں نے مسلمانوں کو ماضی پرستی سے نکالتے ہوئے حال میں جینے اور اصل چیلنجز کا مقابلہ کرنے پر آمادہ کرنے کی کاوشیں کیں۔ اس پر ان کے خلاف کون سا فتویٰ ہے جو نہیں لگایا گیا، کون سا برُا و منفی پروپیگنڈہ ہے جو نہیں کیا گیا مگر انہوں نے روایتی مذہبی نظریات و تصورات کو عقل و شعور کی مطابقت میں دیکھا اور ڈھالا۔ وہ پہلے مسلم منکم ہیں جنہوں نے کلام مقدس یعنی Word of GODکا فطرت کے ابدی اصولوں یعنی Work of GODکی مطابقت میں دیکھتے ہوئے اس کا شعوری جائزہ لیا اور انطباق کیا۔ سماجی طور پر بھی رسوم و روایات کے اسیر اور ان میں الجھے ہوئے اہل وطن کو انہوں نے شعوری و منطقی استدلال کے ساتھ جکڑ بندیوں سے نکالنے کی کاوشیں کیں، مشکلات آئیں لیکن ان کا پامردی سے مقابلہ کیا۔

سرسید کے ہم عصر بڑے بڑے دانشور، لکھاری اور استاد اپنے باہمی اختلافات کے باوجود اس شمع علم کے گرد پروانوں کی صورت جمع ہو گئے تھے جس سے ’’دبستانِ سرسید‘‘ معرضِ وجود میں آیا۔ اسی طرح سرسید کا یہ بھی فیضان ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنی مدبرانہ سوچ اور خدمات سے اپنے وقت کی طاقتور انگریز سرکار کو اپنا گرویدہ بنا لیا بلکہ مابعد پوری تحریک پاکستان اُن کے شاگردوں کی مرہونِ منت رہی۔ 1906ء میں مسلم لیگ کا قیام سرسید محترم کے شاگردوں کا ہی کرشمہ تھا۔ اگر علامہ اقبال جیسی شخصیت ’’سید کی لوحِ تربت پر‘‘ جانا اور لکھنا اپنے لیے قابلِ فخر گردانتی ہے تو قائداعظم محمد علی جناح سرسید کے علی گڑھ کو اپنا ایسا اسلحہ خانہ قرار دیتے نہیں تھکتے جس کی مدد سے انہوں نے قیامِ پاکستان کی جنگ لڑی اور جیتی۔ دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ متحدہ قومیت کی قیادت گاندھی جی، پنڈت نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد بھی سرسید کی شان میں رطب اللسان رہے۔ اسی طرح اُن کے علی گڑھ کالج میں داخلے کے لیے ہندو مسلم کی کوئی تخصیص یا کسی نوع کا امیتازی رویہ نہ تھا۔ وہ دونوں کو برابری میں ترقی کرتے اور پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتے تھے البتہ اردو ہندی تنازع پر وہ سخت دل گرفتہ ہوئے، نئی پڑھائی کے بڑھتے ہوئے تعصبات سے پریشان ہوکر وہ جہاں اس خلفشار کو ختم کرنا چاہتے تھے وہیں اس نوع کے خدشات محسوس کرنے لگے تھے جس کا اظہار انہوں نے انگریز کمشنر کے سامنے کیا تھا، جب اُس نے کہا کہ سید صاحب آپ نے تو پہلے کبھی ایسی بات نہیں کی تو جواباً کہا: میری بوڑھی نگاہیں یہ دیکھ رہی ہیں کہ مستقبل میں دلجمعی کے ساتھ مل کر یہ دونوں آگے نہیں بڑھ پائیں گے، ان کے خلفشار بجائے کم ہونے کے مزید بڑھ جائیں گے اور یہ اکٹھے نہیں رہ پائیں گے۔

شامی صاحب نے اپنی تقریر میں اس نکتے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مغل دور تک ہندوستان میں مسلمانوں کی جس طرح حکمرانی رہی تھی انگریزوں کے آنے پر اس کا خاتمہ کیا گیا، مابعد انگریز سرکار نے یہاں جمہوریت کو متعارف کرواتے ہوئے لوکل باڈیز کے 1864ء میں الیکشن کروائے تو یو پی کے شرفاء اس سے بہت پریشان ہوئے۔ میجارٹی ووٹ چونکہ ہندو تھا اس لیے جیت انہی کی ہونا تھی اور بڑے بڑے مسلم معززین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ سر سید کے پاس آئے کہ اب ہم کیا کریں، اس پر سرسید نے انگریزوں کو سمجھایا کہ آپ لوگ ہندوستان کو انگلستان تصور نہ کریں، وہاں قومیت کا جو تصور ہے وہ یہاں نہیں ہے۔ ہندوستان اگرچہ ایک ملک ہے مگر اس میں مختلف قومیں بستی ہیں جن کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے آپ کو جداگانہ انتخابات کا تصور متعارف کروانا پڑے گا تاکہ آپ سب کو ساتھ لے کر چل سکیں اور سب کی تشفی ہو سکے۔ اسی لیے سرسید کو دو قومی نظریے کا معمار بھی تصور کیا جاتا ہے۔

سیمینار میں موجودہ صحافت کی مشکلات اور اس پر وارد ہونے والی قدغنوں پر بھی خاصی بحث ہوئی۔ درویش نے اسے سرسید کے تصورِ حریتِ فکر سے جوڑتے ہوئے کہا کہ سرسید کی تعلیمات کا روشن ترین پہلو فکری و شعوری آزادی اور اس کے اظہار و بیان کی دعوت ہے۔ وہ عظمتِ انسانی افراد کی ذہنی غلامی نہیں شعوری آزادی اور اس کے اظہار میں دیکھتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد تدریج کے ساتھ اس قدر مذہبی، سیاسی، تعلیمی اور سماجی گھٹن یہاں مسلط کر دی گئی کہ جو فکری آزادیاں یہاں کے باسیوں کو انگریز دور میں میسر تھیں، ان سب کو ختم کرتے ہوئے بدترین بندش اور گھٹن پیدا کر دی گئی۔ اپنی موجودہ سماجی فکری پستی و گھٹن کو دیکھ کر بارہا خوفزدہ ہو جاتا ہوں کہ اگر آج سرسید زندہ ہوتے اور وہ کچھ کہنا یا لکھنا چاہتے جو انہوں نے تب کہا اور لکھا تو وہ یہ سب کسی طور نہ کر پاتے۔ (ختم شد)

تازہ ترین