• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ میں ڈاکٹر طاہر القادری نے کسی ملک کے ساتھ وفا داری کے حلف کا ایک فوجی ڈکٹیٹر کے حلف کے ساتھ موازنہ کرکے اچھا نہیں کیا۔ ان دونوں کا بھلا کیا موازنہ ہوسکتا ہے ۔کسی دوسرے ملک کی وفاداری کا حلف اٹھانے کی ہمیں آئینِ پاکستان اجازت دیتا ہے۔جب کہ کسی فوجی ڈکٹیٹر کا حلف اٹھاناخلافِ آئین ہے اور شاید آئین میں اس جرم کی سزا بھی درج ہے۔کسی دوسرے ملک کی وفاداری کے حلف میں کہیں اپنے ملک اور اس کے آئین کی وفاداری کے خلاف کوئی بات درج نہیں ہوتی جب کہ ڈکٹیٹر کی وفاداری کا حلف آئین ِ پاکستان پر عمل نہ کرنے کا حلف ہوتا ہے جو ملک و قوم سے غداری کے زمرے میں آتا ہے ۔کسی دوسرے ملک کی وفاداری کے حلف میں یہ شامل نہیں ہوتا ہے کہ تم اپنے ملک سے وفادار نہیں رہو گے جب کہ ڈکٹیٹر سے وفاداری کا حلف ملک سے وفاداری نہ کرنے کاحلف ہوتاہے ۔کسی دوسرے ملک کے حلف میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جو آپ کے ضمیر کے خلاف ہو جو حقوقِ انسانی کے خلاف ہو جب کہ ڈکٹیٹر کی وفاداری کا حلف اپنے ضمیر کے خلاف بھی ہوتا ہے اور حقوقِ انسانی کے خلاف بھی۔اسلام کے تحت جس ملک میں آپ قیام پذیر ہیں اس کے ساتھ وفاداری کا عہدہ جائز ہے جب کہ کسی ڈکٹیٹر کا حلف اٹھانے کے حوالے سے واقعہ کربلا چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے یہ ناقابلِ معافی گناہ ہے ۔
میں نے بہت عرصہ پہلے لکھا تھا کہ عدلیہ تحریک کے ہیرو چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی،جسٹس ناصر اسلم زاہد، جسٹس وجیہ الدین احمد، جسٹس مامون قاضی، جسٹس خلیل الرحمن خان اور جسٹس کمال منصور عالم ہیں جنہوں نے 1999میں ایک فوجی ڈکٹیٹر کی وفاداری کا حلف اٹھانے سے انکارکردیاتھا۔میرے ضمیر نے کبھی گوارہ نہیں کیا کہ میں چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کے نام کے ساتھ ”سابقہ “ کا لفظ لکھوں ۔ان کے علاوہ کچھ گمنام ہیرو بھی ہیں جنہوں نے پرویز مشرف کی وفاداری کا حلف نہیں اٹھایا تھا ان میں پشاور ہائی کورٹ کے دو جج ، لاہور ہائی کورٹ کے دو جج اور تین جج سندھ ہائی کورٹ کے شامل ہیں۔گذشتہ پانچ سالہ جمہوری حکمرانوں کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ پاکستان کے ان عظیم ہیروز کو کچھ اور نہ دیں کسی تمغہ سے ہی نواز دیں مگرمنزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
عدلیہ تحریک میں سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ جن جج صاحبان نے 1999میں فوجی ڈکٹیٹر کا حلف اٹھا لیا تھا انہوں نے 2007میں صرف اس بات کا حلف اٹھانے سے انکار کردیا کہ عدلیہ کوئی فیصلہ صدر اور وزیراعظم کے حکم کے خلاف نہیں سنا سکتی یہ ایسا حلف قطعاً نہیں تھا کہ اسے مارشل لاء کا حلف نامہ قرار دے کر جج عوام کی عدالت میں پہنچ جاتے یقینا اس کہانی کے پس منظر میں کوئی اور کہانی موجود ہے۔
بات شروع ہوئی تھی ڈاکٹر طاہر القادری کی دہری شہریت سے ،یہاں سب سے پہلے تو اس بات کی وضاحت ضروری ہیں کہ پاکستان کے آئین کے مطابق دنیا میں صرف سولہ ممالک ایسے ہیں جہاں کی شہریت پاکستانی شہری رکھ سکتے ہیں ۔تمام دہری شہریت والے پاکستانی صرف انہی ممالک کی شہریت رکھتے ہیں ۔ان میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں ملکہ برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھانا پڑتا ہے اوربقول الطاف حسین یہ حلف توبانی پاکستان محمد علی جناح نے بھی اٹھایا تھا ۔وہ شخصیت جس نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا ہے ان کے پاس بھی دہری شہریت ہے ۔پاکستان کے واحد سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام جنہیں نوبل پرائز ملا وہ بھی دوہری شہریت رکھتے تھے ۔پاکستان میں دہری شہریت رکھنے والی دو شخصیات وزیراعظم کے عہدے پر بھی فائز رہی ہیں ۔انہوں نے جو بھی کیا کم ازکم شریف زرداری کی طرح ملک لوٹا نہیں ۔ملک کیلئے سیکورٹی رسک ہمیشہ یہی لوگ رہے ہیں دہری شہریت والے نہیں ۔ دہری شہریت صرف رحمن ملک کے پاس نہیں۔پنجاب کی ایک بڑی شخصیت پر بھی پنجاب اسمبلی کے قائدِ حزب اختلاف نے یہی الزام لگایا ہواہے۔یہ الگ بات ہے کہ ثبوت کیلئے تگ و دو جاری ہے۔سابق سفیر حسین حقانی ،ان کی موجودہ بیگم فرح اصفہانی ،آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا بھی دہری شہریت رکھتے ہیں ۔بڑے بڑے عہدوں پر فائز بے شمار لوگ دہری شہریت کے حامل رہے ہیں ۔جن کی ملک کے ساتھ وفاداری پر شک کرنا سورج کوسیاہ گولا کہنے کے مترادف ہے۔صوبہ سندھ کے گورنر بھی دہری شہریت رکھتے ہیں۔بلکہ ایم کیو ایم کے قائد اور پاکستانی سیاست کی اہم ترین شخصیت الطاف حسین کے پاس بھی دہری شہریت ہے اور ایم کیو ایم کے تمام قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی ارکان اسی دہری شہریت کی حامل شخصیت کے سوچ اور فکرکے مطابق کام کرتے ہیں یوں وہ تمام ارکان ایک ایسی شخصیت کی وفاداری کرتے ہیں جس کی اپنی پاکستان کے ساتھ وفاداری سپریم کورٹ کے خیال میں مشکوک ہے ۔کیا سپریم کورٹ اس بنیاد پر ایم کیو ایم کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک سکتی ہے ۔میرا خیال ہے سپریم کورٹ یہ بات سوچ بھی نہیں سکتی تو پھر ڈاکٹر طاہر القادری نے دہری شہریت حاصل کرکے کونسا گناہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ اتنی سیخ پا ہے کہ اس نے ان کے ساتھ دنیا بھرمیں رہنے والے لاکھوں پاکستانیوں پرملک کے ساتھ وفادار نہ ہونے کا الزام لگادیا ہے ۔سپریم کورٹ اس سلسلے میں دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں سے معافی مانگنی چاہئے۔اسی میں سپریم کورٹ کی عظمت ہے ۔
تازہ ترین