• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے ہفتے بڑے میاں صاحب کے جسم میں پلیٹ لیٹس میں کمی آگئی اور انہیں نیب ہیڈ کوارٹرز سے فوری طور پر سروسز اہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اس دوران کبھی پلیٹ لیٹس اوپر اور کبھی نیچے ہوتے رہے، کبھی ڈاکٹروں کی سمجھ میں مسئلہ آتا اور کبھی نہیں۔ زندگی اور موت کا فیصلہ تو رب العزت کو کرنا ہوتا ہے لیکن جہاں تک بہترین علاج اور جدید اسپتال بنانے کا تعلق ہے تو یہ انسانوں کا کام ہے جو نون لیگ نے اپنے دور میں نہ کیا۔ ہمیں یاد ہے جب شہباز شریف نے لاہور میں اورنج ٹرین بنانے کا اعلان کیا تو ہم نے اس پر کئی تنقیدی کالم اور مضامین لکھے تھے۔ ہمارا موقف تھا کہ لاہور کے لوگوں کو اورنج ٹرین کی نہیں بلکہ کم از کم چار انتہائی جدید ترین سہولتوں سے آراستہ اسپتالوں کی ضرورت ہے۔ پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں علاج کی سہولتوں کا فقدان ہے، وہاں کوئی جدید اسپتال نہیں لوگ اپنے مریضوں کو بہت دور سے لاہور لاتے ہیں۔ ہمارے موقف سے اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اختلاف بھی کیا تھا۔ ہم نے ان سے ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ آپ ایسے ڈاکٹرز‘ جنہوں نے بیرونِ ممالک سے تربیت اور ڈگریاں حاصل کی ہیں، کی سرپرستی میں ایک ریسرچ کا ادارہ بنائیں جہاں نوجوان ڈاکٹروں کو تربیت دیں اور جو نئی نئی بیماریاں آرہی ہیں ان پر ریسرچ کرکے اپنے ہی ملک میں ویکسین اور جدید ادویات بنانے کے لئے کام کریں کیونکہ مستقبل میں بیماریاں بڑھ جائیں گی۔

آج اورنج ٹرین کا منصوبہ 2کھرب پر پہنچ چکا ہے جبکہ اتنی رقم میں لاہور میں پانچ جدید ترین اسپتال بنائے جا سکتے تھے، مگر کون سنتا ہے۔ چھوٹے میاں صاحب کے سر پر اورنج ٹرین کا بھوت سوار تھا، سو وہ ادھر ہی لگے رہے لیکن اورنج ٹرین ابھی تک پٹری پر نہیں چڑھ سکی۔

دوسری طرف ہمارے بڑے سیاستدان اپنے علاج کے لئے برطانیہ، جرمنی، فرانس اور دبئی جاتے ہیں۔ اللہ کے بندے کرپشن اور فضول قسم کے منصوبوں پر پیسے اجاڑنے کے بجائے اپنے ملک میں جدید اسپتال بنانے پر زور دیتے تو آج ملک کے کئی شہروں میں دنیا کے بہترین اسپتال ہوتے۔ ایک اللہ کے نیک بندے پروفیسر ڈاکٹر طارق محمود کراچی جناح اسپتال میں ہوتے ہیں، جو سائبر نائف (کینسر کے علاج کی جدید روبوٹ مشین، جو دنیا بھر میں صرف 55ممالک میں ہے) کے ذریعے سرطان کے مریضوں کا مفت علاج کر رہے ہیں حتیٰ کہ ایک روپے کی پرچی بھی نہیں ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر طارق محمود نے اپنے شعبے میں کیش کائونٹر تک نہیں بننے دیا، تمام علاج بالکل مفت ہوتا ہے جبکہ دنیا کے جن 55ممالک میں سائبر نائف ہے وہاں پچاس ہزار سے نوے ہزار ڈالر میں علاج ہوتا ہے۔ یہاں یہ علاج سندھ حکومت اور این جی او کے تعاون سے بالکل مفت ہو رہا ہے اور پورے پاکستان کے علاوہ غیر ممالک سے مریض یہاں آ رہے ہیں۔ یہ ایشیا کا بہترین سرکاری سینٹر ہے، سائبر نائف کی مالیت 63کروڑ روپے ہے، اگر چھوٹے میاں صاحب اورنج ٹرین بنانے کے بجائے سائبر نائف کی دو چار مشینیں لگا کر دو چار سینٹر بنا دیتے تو آج سرطان کے سینکڑوں مریضوں کی جان بچ جاتی، مگر ان کی ضد کے آگے کون بولتا۔

کبھی سوچا ہے تم کو لوگ اچھا کیوں نہیں کہتے

کبھی تنہائیوں میں اپنی خطا کو یاد کر لینا

کسی مظلوم کے دل کی صدا کو یاد کر لینا

کسی بھی ظلم سے پہلے سزا کو یاد کر لینا

کبھی سوچا ہے کسی نے سرطان کے مرض میں مبتلا مریض کتنے مظلوم ہوتے ہیں اور دنیا بھر میں سرطان کا علاج کس قدر مہنگا ہے۔ کیا بیس ہزار روپے تنخواہ لینے والا علاج کرا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھلا کرے ڈاکٹر طارق محمود کا جو روزانہ کئی سرطان کے مریضوں کا علاج مفت کر رہے ہیں اور دسمبر کے مہینے میں ایک اور سائبر نائف کی مشین کام شروع کر دے گی۔ بنیادی طور پر یہ ایک روبوٹ ہے جو شعاعوں کے ذریعے سرجری کرتا ہے جیسے سرجن ہاتھ سےسرجری کرتا ہے۔ پوری دنیا میں ایسے صرف 300سے 350روبوٹس ہیں۔ پاکستان میں واحد اور اکلوتا روبوٹ جناح اسپتال کراچی میں ہے۔ یہ روبوٹ کینسر کی پہلی اور دوسری اسٹیج کے مریضوں کو ٹھیک اور بیماری کو ختم کر دیتا ہے۔ تیسری اور چوتھی اسٹیج کے مریضوں کا علاج اس کے ذریعے ممکن نہیں۔ پوری دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں اس روبوٹ کے ذریعے سرطان کے مریضوں کا بالکل مفت علاج ہو رہا ہے۔ حال ہی میں اس سینٹر میں ایک پٹھان بچے کو لایا گیا جو دیکھ نہیں سکتا تھا۔ اس کے دماغ میں ٹیومر تھا، آج وہ بچہ اپنی دونوں آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔ اس روبوٹ کے ذریعے دماغ، حرام مغز، پروسٹیٹ اور پھیپھڑوں کے سرطان کا علاج کیا جا رہا ہے۔ پروسٹیٹ کینسر اگر پہلی اسٹیج پر ہے تو پھر سو فیصد علاج ہو جائے گا۔ پاکستان کے 35شہروں اور 12ممالک سے سرطان کے مریض علاج کرا کے، تندرست ہو کر جا چکے ہیں۔ ڈاکٹر طارق محمود کا یہ کہنا ہے کہ کینسر کے مریضوں کا علاج ہر صورت میں مفت ہونا چاہئے۔ یہ مفت علاج لوگوں کی زکوٰۃ اور عطیات کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔

کاش! نون لیگ حکومت اپنے دور میں سرکاری اسپتالوں کا معیار بہتر بناتی۔ آج بڑے میاں صاحب جس وی وی آئی پی روم سروسز اسپتال میں ہیں، عام زندگی میں شاید اس کمرے میں جانا پسند نہ کرتے۔ ذرا دیر کو سوچیں کہ جیلوں میں آج ہزاروں قیدی مختلف خطرناک اور جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہیں، کبھی کسی حکومت نے ان کا سوچا؟ ان میں ایڈز، ہیپاٹائٹس بی/سی، دانتوں کی بیماریاں، گردوں اور پیٹ کی بیماریوں کے مریض شامل ہیں مگر کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ جیلوں میں جو ڈاکٹر ہیں وہ صرف ایم بی بی ایس ہیں، کسی کے پاس کوئی اعلیٰ ڈگری نہیں، جیلوں کے اندر جو چھوٹے موٹے اسپتال یا میڈیکل ایڈ کے کمرے ہیں وہ اس قدر ناقص اور غیر معیاری ہیں کہ وہاں کوئی جانوروں کا بھی علاج نہ کرائے۔

پاکستان میں آئندہ چند برسوں میں کینسر کا مرض بہت بڑھ جائے گا، اس کیلئے ابھی سے کچھ کرنا ہوگا۔

تازہ ترین