• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالآخر بھارت کی فاشسٹ حکومت کے غیر آئینی اقدام سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کر کے اسے اڑھائی ماہ کرفیو کی سخت پابندی محبوس و مقہور بنانے کے خلاف امریکی عوام بول پڑے۔ امریکیوں کے منتخب ایوان میں مقبوضہ کشمیر کے تشویشناک اسٹیٹس کو کی مہینوں سے بڑھتی تشویشناک حالت اور اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کی دو رپورٹس میں وہاں بنیادی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی اور کمیشن کے فیکٹس فائنڈنگ مشن بھیجنے کی اجازت پر اصرار، پھر انسانی نسل کشی کی مانیٹرنگ کرنے والے امریکی واچ ڈاگ، جینو سائیڈ الرٹ کی مقبوضہ کشمیر میں ریاستی نسل کشی کے خلاف عالمی برادری کو الرٹ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کے تحفظ کی عالمی تنظیموں کی تشویش اور وارننگ کے باوجود مودی کی ہٹلر طرز کی حکومت پر جوں نہ رینگی بلکہ محبوس کشمیریوں کے خلاف دہشت گردانہ ریاستی اقدامات میں اضافہ اور سختی ہی ہوتی گئی، اب یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے دنیا کا بدترین علاقہ بن چکا ہے جس میں دنیا خصوصاً صحافیوں، سیاستدانوں اور ہیومن رائٹس کی حفاظت کے حوالے سے صرف سرگرم اداروں کی پہنچ ہی ناممکن نہیں بنائی گئی بلکہ طویل ترین کرفیو کی سخت پابندیوں سے اسے بھارتی مین لینڈ سے بھی فاشسٹ مودی حکومت نے خود ہی اپنے ’’اٹوٹ انگ‘‘ کو کاٹ کر رکھ دیا حالانکہ وہ اپنے کاروبار، بیرونی سفر، رشتے داریوں، علاج و تعلیم اور کتنے ہی حوالوں سے مجبوری و بے کسی سے بھارتی مین لینڈ سے جوڑ دیئے گئے ہیں۔ ان کا اقوام متحدہ میں تسلیم شدہ حق خود ارادیت فقط بندوق کی طاقت اور بڑی عالمی منڈی کے تکبر میں بھارتی بلیک میلنگ نے دنیا کی کتنی ہی کمزور حکومتوں بشمول کچھ مسلم برادر ممالک کو بھی چپ سادھنے پر مجبور کیا ہوا ہے، جبکہ وہ مقبوضہ کشمیریوں کے ساتھ مودی حکومت کی ریاستی دہشت گردی سے بخوبی آگاہ ہیں کہ بھارت مقبوضہ علاقے میں بنیادی انسانی حقوق، اقوام متحدہ کی منظور قراردادوں کو کب سے اور کس کس حربے سے کچل کے رکھے ہوئے ہے لیکن کب تک ؟محبوس کشمیری کسی طور بھارت کے ساتھ چلنے اور اسے قبول کرنے کےلئے تیار نہیں۔اس پس منظر میں وزیراعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی کے گزشتہ ماہ کے اجلاس میں جس طرح بھارت کی کشمیر کے حوالے سے بھارتی ریاستی دہشت گردی اور اس پر عالمی معاشرے کی بے حسی اور بے بسی کا پردہ چاک کیا ہے، اس نے بہرحال اہم ممالک کی حکومتوں، عالمی میڈیا، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور منتخب ایوانوں کو مضبوط کشمیر کی صورتحال کی طرف توجہ دینے پر مجبور کر دیا ہے ۔مقبوضہ کشمیر کی صورتحال جتنی گھمبیر ہو چکی ہے، بھارتی اور پاکستانی سرحدی جھڑپوں میں جتنا تواتر پیدا ہوگیا پھر جس طرح پاکستان اور بھارت میں اقتصادی بحران کے باوجود کسی بڑی جنگ کے امکانات میں اضافہ اور اسی تناظر میں اسلحے کی دوڑ تیز ہو رہی ہے، یہ سب کچھ امیر ترقی یافتہ اور بڑے عالمی فورسز کے رکن ممالک اور امریکہ، چین، روس، فرانس اور برطانیہ جیسی ذمے دار عسکری طاقتوں کے لئے بھی چیلنج بنتی جا رہی ہے کہ وہ تو علاقائی اور عالمی امن کو بڑے خطروں سے نمپٹنے میں اب جیسے کسی کردار کے قابل ہی نہیں رہے۔

سو، امریکی منتخب نمائندوں نے امریکہ میں بھارتی سفیر کو ایک خط میں مودی حکومت پر جواب طلبی کے سے انداز میں سوالات کی بوچھاڑ کر دی ۔جس میں یوں برصغیر اور گھمبیر کشمیر کی تیزی سے بگڑتی انسانی زندگی کی صورتحال سے متعلق کھلے کھلے عملی نوعیت کے یہ سوال کئے ہیں کہ: بھارتی معلومات اور دعوئوں سے مختلف، کیا وادی میں مواصلات ، انٹرنیٹ بحال کر دیا گیا؟کرفیو کب ختم ہو گا؟ غیر ملکی صحافیوں اور ہمیں وادی کے دورے کی اجازت کب ملے گی؟ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے بیان میں امریکی منتخب اراکین کانگریس کے خط کی ترجمانی یوں کی کہ نائب وزیر خارجہ (برائے جنوبی ایشیاء) ایلس ویلز نے پاکستانی بیانئے کی اس تکرار کہ مقبوضہ وادی میں 80لاکھ افراد کی زندگیاں شدید متاثر ہیں توثیق کر دی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت روڈ میپ دے، سیاسی مذاکرات شروع، نظربند رہا کرے اور وادی کی اقتصادی پابندیاں بحال کی جائیں ۔گرفتار نوجوانوں کے اعدادوشمار اور زخمیوں کی تعداد سے آگاہ کیا جائے۔امر واقعہ یہ ہے کہ بھارت کی ’’بڑی منڈی‘‘ کی بلیک میلنگ کو جس طرح ترک صدر جناب طیب اردوان اور ملائیشیا کے دانشور صدر جناب مہاتیر محمد نے جوتی کی نوک پر رکھ کر بھارتی کشمیر کو مقبوضہ علاقہ قرار دینے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کرنے کے اپنے موقف پر قائم رہنے کا اعادہ کیا ہے، اس سے تو اصل عالمی رہنما اب وہ مانے جا رہے ہیں۔امریکہ کے منتخب ارکان اور حکومت اگر بھارت پر متذکرہ سوال نہ اٹھاتی ، استفسار نہ کرتی اور پاکستانی تشویش کو درست قرار نہ دیتی تو بطور عالمی طاقت تیزی سے زیرو ہو رہی تھی۔

اب پاکستانی حکومت پر لازم ہوگیا ہے کہ وہ اتنی سنجیدہ امریکی سفارتی معاونت کا فالو اپ سے فائدہ اٹھا کر عالمی برادری کی مزید سفارتی معاونت حاصل کرنے کےلئے مہم چلائے۔

تازہ ترین