• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا مشترکہ بارہواں کھلاڑی!

سیاست اور ریاست میں جو اپنی سیاسی بساط بچھائے رکھے اور سیاست کے سب موسموں میں اسے نہ لپیٹے، وہ ہارے یا جیتے بہرصورت اہم رہتا ہے۔ اس ضمن میں مولانا فضل الرحمٰن کو دیکھیں تو وہ مولویوں کے ذوالفقار علی بھٹو ہیں، اسلام کی خدمات بھی ان پر ختم اور ’’سیاسی سیکولرازم‘‘ کا یہ عالم کہ جنرل مشرف بھی سرکار کے ضرورت مند تھے، بعد ازاں زرداری ضرورت نے بھی ان کے کنویں سے پانی بھرا۔ پھر شریف حکومت کے حکومتی امتحان میں بھی مولانا لازمی مضمون تھے۔ 

2008 تا 2018مسلسل حکومت میں رہنے والے آصف زرداری اور نواز شریف جب 2019میں اقتدار سے باہر ہوئے تو دونوں کو ایک دفعہ پھر مولانا کی ضرورت پڑی، مولانا نے انہیں مایوس نہیں کیا۔ 

ایسے ہی جیسے 2002میں مولانا کی جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، مرکزی جمعیت اہل حدیث، جے یو آئی (س)، تحریک اسلامی اور دیگر احبابِ ذی وقار کو ضرورت پڑی تو مولانا نے سب مولویوں کو دل ربائی و دل جوئی سے نوازا۔ 

کہا جاتا ہےکہ مہذب جمہوری معاشروں میں اپوزیشن ایک متبادل حکومت ہوتی ہے پس یہ ثابت ہوا کہ حالیہ آزادی مارچ میں، کچھ ہو، نہ ہو مگر اکیسویں صدی کے آغاز سے آج دو عشروں کے اختتام تک مولانا حاصلات و متبادلات کے حاکم ہی ٹھہرے!

کچی عمر سے پروین شاکر کا ایک شعر دل میں دبا رکھا تھا جسے آج پکی عمر میں سیاسی استعمال میں لانے لگے ہیں کہ نواز و زرداری کے منہ سے مولانا کیلئے یہ شعر کتنی نغمگی اور موسیقیت کا حامل ہوگا۔

اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی

جیتوں تو تجھے پاؤں ہاروں تو پیا تیری

اگر کسی کے من یا منظر میں اعتراض ہو کہ بارہویں کھلاڑی کے متعلق افتخار عارف کے تو خیالات ہیں کہ... ’’میں الگ تھلگ سب سے، بارہویں کھلاڑی کو، ہوٹ کرتا رہتا ہوں، بارہواں کھلاڑی بھی، کیا عجب کھلاڑی ہے، کھیل ہوتا رہتا ہے، شور مچتا رہتا ہے، داد پڑتی رہتی ہے اور وہ الگ سب سے، انتظار کرتا ہے‘‘ ان خیالات کیلئے عرض ہے، مولانا ایک ٹیم کے نہیں بیک وقت دو یا دو سے زائد ٹیموں کے بارہویں کھلاڑی ہیں، ایسی اہمیت اور افادیت والا کھلاڑی اقتدار کی جنت میں رہے نہ رہے مگر مقامِ اعراف پر ضرور رہتا ہے۔ 

عہدِ حاضر میں مولانا نہ صرف پی پی اور نون لیگ بلکہ جماعت اسلامی کی آئیوڈین کی کمی بھی پوری کر رہے ہیں!

ایک ایک سوال پیپلز پارٹی اور نون لیگ سے کرنا ہے اور جماعت اسلامی سے بھی لیکن پہلے مولانا سے۔ مولانا! حواس باختہ ہو کہ حواس باختہ کر رہے ہو؟ جو اکرم درانی نیب کا مہمان بننے جا رہا ہے اسی کو رہبری دے کر حکومتی مذاکرات میں ’’ملوث‘‘ کر دیا اور سینیٹ چیئرمین محترم سے بلاول بھٹو کے کہنے پر گفت و شنید کے باب کو تالا لگا دیا؟ 

سر راہ چلتے چلتے کیپٹن (ر) صفدر بند گلی میں اور زرداری صاحب انڈر میڈیکل ابزر ویشن، میاں صاحب استقامت کی شاہراہ پر مگر ششدر ماحول کی یہ بازگشت کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ لیکن یہ بات ہے کہ تین دفعہ وزیراعظم رہنے والے کیلئے اب وزارتِ عظمیٰ کوئی بڑی حسرت یا خواب نہیں، وہ اس سے قریباً بے نیاز ٹھہرے لیکن بطور قائد تو وہ زندگانی اور جمہور کی روانی کا حق رکھتے ہیں!

ایک ایک سوال پیپلز پارٹی اور نون لیگ سے؛ کیا پیپلز پارٹی درست، اور اس کی شکست بھی درست ہے؟ بات لاڑکانہ صوبائی اسمبلی الیکشن کی نہیں، وہ تو کوئی بات نہیں مہروں کے قومی اسمبلی والا گھوٹکی ضمنی الیکشن بھانجے نے ماموں سے مار ہی لیا تھا مگر وہ لیاری لیاری ہے اور یہ لاڑکانہ بہرحال لاڑکانہ، وہ وفاقی و آفاقی والی بات کہاں گئی؟ تلخ نوائی کو جی تو نہیں چاہتا مگر تلخ حقیقت سے کنی کترانا بزدلی و لاپروائی ہے۔ 

مدت ہوئی مجھے قلم قبیلے سے بھٹو والے نہیں ملتے جو دو چار دستیاب ہیں وہ پیپلز پارٹی کی مقامی، صوبائی و قومی قیادت سے بے نیاز ہیں اور قیادت ان سے بے نیاز۔ کدھر گئے وہ سب جو پیپلز پارٹی کے پسینے پر لہو چھڑکتے تھے؟ میرا خیال ہے یہ سوال بنتا ہی نہیں کیونکہ سوال وہ ہوتا ہے جس کا کوئی نہ کوئی، کہیں نہ کہیں جواب ہو۔ 

اور یہ سوال اپنی صحت اور پیپلز پارٹی کی فطرت سے بہت دور اب نوحہ بنا کھڑا ہے۔ جب خورشید شاہ وفاقی وزیر تھے ہم نے ایک ملاقات میں انہیں کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کیلئے میڈیا مسلسل موافق نہیں اور نہ اس کا پروپیگنڈا، شاہ جی نے اتفاق تو کیا لیکن اور کچھ نہیں۔ 

پی پی والے خود میڈیا پرسن بن بیٹھے مگر میڈیا دوست گنوا بیٹھے۔ حالانکہ شاہ جی کو پنجاب میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر ان کی گرفتاری پر پنجاب میں کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ سب مرکزی لیڈر کہلاتے ہیں مگر درجہ مقامی ہی بچا۔ 

ایک ملاقات ہوئی تھی نفیسہ شاہ سے، ان کی اطلاعات و نشریات بھی حیدرآباد سے شروع ہوکر سکھر تک ہی پہنچتی ہے۔ سندھ سے بھٹو وفاقی رہے یا ان کی قبریں، کسی حد تک زرداری و بلاول بھی لیکن باقی ’’مرکزی‘‘ اہل سندھ مرکزہ بن سکے نہ وسعتیں!

رہی بات نون لیگ کی، تو یہ ہنوز وفاقی ہے، مجھے نہیں لگتا میاں نواز شریف اڑان بھریں گے۔ صحت نے گر امتحان لیا بھی، وہ دیار غیر گئے بھی تو لوٹ آئیں گے کیونکہ پاکستان میں ان کی سیاسی جڑیں موجودہ حکومت کی سرگرمیوں کے باعث پہلے سے زیادہ گہری ہو چکیں کیونکہ شریف خانے سے باہر شاہد خاقان و مرتضیٰ عباسی اور احسن اقبال و خواجہ آصف جیسی متعدد توانا آوازیں نوازیانہ بازگشت بن چکی ہیں!

اور کوئی بتائے کہ جماعت اسلامی کی شیلف لائف ختم ہو چکی کیا؟

اس مشترکہ بارہویں کھلاڑی کو ہوم کراؤڈ اور تالیاں انجوائے کرنے کیلئے پیپلز پارٹی و نون لیگ کا ہوم گراؤنڈ مل چکا، امپائرنگ کا انصاف بھی مل گیا تو حکومت کے لیے حالات سازگار نہ رہیں گے، جینا مشکل ضرور ہو گا اوپر سے یہ دوٹیموں کا مشترکہ بارہواں کھلاڑی مذہبیت اور سیاسی سیکولرازم کی دو دھاری تلوار بھی تو ہے!

تازہ ترین