• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے دیگر جماعتوں کے قائدین کے ساتھ مل کر ہیومن رائٹس کمیشن کو اپنے بنیادی حقوق کی سلبی کے بارے میں آگاہ کیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ احتجاج جو کسی بھی جمہوری عمل میں عوام کا حق ہوتا ہے، حکومت عوام کو اس حق سے محروم کرنا چاہتی ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ نہ صرف عوام کو اس حق سے محروم کیا جا رہا ہے بلکہ اظہارِ رائے کے حق کو بھی سلب کر لیا گیا ہے۔ اپوزیشن کے رہنمائوں کو الیکٹرونک میڈیا پر دکھانے کا سلسلہ مکمل طور پر بند ہو چکا ہے، ان کی پریس کانفرنس ہو یا میڈیا ٹاک، کوئی بھی چینل اسے مکمل طور پر کوریج دینے کو تیار نہیں۔ وزیراعظم عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو انہوں نے لانگ مارچ بھی کیا اور اسلام آباد کے ریڈ زون میں کئی دن دھرنا دے کر بھی بیٹھے رہے مگر اس وقت کی حکومت کی جانب سے ان کے راستے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی گئی، تحریک انصاف کا لانگ مارچ لاہور سے شروع ہو کر اسلام آباد تک پہنچا مگر راستے میں کہیں بھی حکومت کی جانب سے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی گئی۔ اسی طرح طاہر القادری نے بھی دو لانگ مارچ کیے مگر اس وقت کی حکومتوں کی جانب سے انہیں راستے میں روکنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ عمران خان جب خود اپوزیشن میں تھے تو اس بات کا ڈھونڈورا پیٹتے نہیں تھکتے تھے کہ احتجاج کسی بھی جماعت کا بنیادی جمہوری حق ہوتا ہے اور اسے یہ حق حاصل ہونا چاہئے مگر آج وہ خود اقتدار میں آنے کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں سے یہ بنیادی جمہوری حق چھیننے کے درپے ہیں۔ یاد رہے عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی کہا تھا کہ اپوزیشن جب چاہے احتجاج کرے، دھرنا دے، ان کے راستے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی جائے گی بلکہ انہیں احتجاج کے لیے کنٹینر بھی دیا جائے گا مگر محسوس ہوتا ہے کہ وہ آج اپنے اس بیان سے یو ٹرن لے چکے ہیں۔ موجودہ حکومت نے حزب اختلاف کی جماعتوں کے احتجاج کو روکنے کے لیے اسلام آباد کی طرف آنے والے تمام راستوں کو کنٹینر لگا کر نہ صرف بلاک کر دیا ہے بلکہ دور روز قبل ہی جمعیت کے رہنما حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ حکومت راولپنڈی، اسلام آباد میں ہمارے رہنمائوں اور ہمدردوں کو گرفتار کر رہی ہے۔ آج تحریک انصاف کی حکومت فسطائی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ یاد رہے اگر ہم ماضی قریب کی تاریخ کو دیکھیں تو جب عمران خان کے لانگ مارچ اور دھرنے کو وہ تمام سہولتیں میسر تھیں جو کسی بھی احتجاجی عمل کے لیے لازم ہوتی ہیں اور کہیں اگر میسر نہیں بھی تھیں تو عدلیہ کے حکم کے نتیجے میں انہیں وہ سب کچھ مہیا کر دیا گیا جسے وہ اپنا حق سمجھتے تھے، آج جمعیت کے قائدین کو چاہئے کہ وہ یہ مطالبہ کریں کہ گزشتہ دھرنوں میں عدلیہ اور ریاستی اداروں کی جانب سے جو مراعات احتجاج میں شریک عوام اور قائدین کو دی گئی ہیں، وہی آج موجودہ حزب اختلاف کو بھی ملنا چاہئیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کو سوچنا ہوگا کہ ان کے یہ انتقامی رویے جمہوری عمل کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ پاکستان میں موجودہ سیاسی، معاشی اور جمہوری بحران جو پہلے ہی پستی کا شکار تھا، تحریک انصاف کی حکومت کے موجودہ رویے نے اسے مزید گہرا کر دیا ہے۔ اظہارِ رائے پر پابندی، میڈیا کا بحران، عدلیہ کی آزادی کوسلب کرنا، پارلیمنٹ کی بالادستی کو جان بوجھ کر کم کرنا اور حزب اختلاف کی جماعتوں کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا کر جیل میں بند کرنا، یہ تمام اقدامات جموری ارتقا کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

آج عمران خان کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا حکم دیں اور تمام مسائل کا حل افہام و تفہیم سے نکالیں، انہیں یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ سیاست بردباری کا نام ہے، بجائے اس کے کہ تمام حزب اختلاف کی جماعتوں کے قائدین کو انتقام کا نشانہ بنا کر سیاسی خلا پیدا کریں۔ ان کے یہ آمرانہ اقدامات اور غیر آئینی مداخلت دراصل جمہوری و وفاقی نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ وہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے ساتھ مل کر افہام و تفہیم سے اس ملک کو مسائل کی دلدل سے نکال سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کو چاہیے کہ بائیس کروڑ عوام جو پہلے ہی مہنگائی کہ وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں، کو مزید مہنگائی اور خلفشار میں دھکیلنے کے بجائے پُرامن و مفاہمتی عمل سے جمہوریت کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرے ورنہ عوام جو پہلے ہی مہنگائی و دیگر مسائل کی وجہ سے غصے سے لبریز ہیں، کا یہ غصہ کہیں تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے کوئی مسئلہ نہ پیدا کر دے۔

تازہ ترین