• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اکبر احمد کی نئی کتاب ”دی تھسل اینڈ دی ڈرون“ انتہائی متاثر کن اور ہیجان پیدا کرنے والی علمیت کا نمونہ ہے۔ اس کتاب کے نام میں راقم الحروف نے لفظ ’ڈرون‘ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی عالمی جنگ کے مقابل بطور علامت تحریر کیا ہے جبکہ لفظ تھسل قبائلی معاشرے کی سرکشی اور سخت جان ہونے کو بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے جو اس تنازعے سے دوچار ہیں۔کتاب کا مرکزی موضوع بحث دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے تباہ کن اثرات کے ساتھ ساتھ 9/11کے بعد دہشت گردی کے تدارک کے لئے اپنائی جانے والی امریکی پالیسی ہے جس نے مرکزی حکومتوں اور قبائلی معاشروں کے پہلے سے ابتر تعلقات کو مزید خراب کیا۔ اکیسویں صدی کی اس مصنوعی قاتل نما ڈرون ٹیکنالوجی نے وزیرستان سے لے کر افغانستان، یمن اور صومالیہ میں دنیا کی مفلس ترین اور جنگجو قبائل کو اپنا ہدف بنایا ہے جس کے باعث ان نازک معاشروں میں انتشار کی فضا قائم ہوئی۔
ان کمیونٹیز کے حصوں سے اب ناقابل بصارت سمتوں میں عالمی تشدد پروان چڑھنے کا خطرہ پیدا ہوا ہے۔
پروفیسر احمد کی یہ تیسری قلمی کاوش غیر معمولی مثلثی ربط کی آئینہ دار ہے جس میں امریکہ اور اسلامی دنیا کے مابین تعلقات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ تین برس قبل شائع ہونے والی ان کی کتاب میں امریکہ میں بسنے والی مسلمان اقلیت کو9/11کے بعد درپیش مشکلات کو موضوع بحث بنایا گیا تھا جس نے قارئین کو اس مسئلے کی روح سے روشناس کرایا۔
کتاب میں دنیا بھر سے چالیس قبائلی معاشروں کی کیس اسٹیڈیز کی نظیروں کی مدد سے نتائج اخذ کئے ہیں اور امریکہ کی دہشت گردی کی روک تھام کیلئے وضع کردہ تذویر کے ان پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔پروفیسر احمد اکبر کو اس بات کا شاید اندازہ نہیں تھا کہ ان کی کتاب کی اشاعت کے وقت ہی امریکہ میں ڈرون طیاروں کے ذریعے جنگ لڑنے کے قانونی، اخلاقی جوازوں اور اس کے دوررس نتائج پر ہمہ گیر بحث بھی جاری ہوگی ۔ اب تک تو اس موضوع پر بحث صرف چند انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے گروہ اور لبرل تھنک ٹینکس میں جاری تھی تاہم گزشتہ ہفتوں میں کانگریس بھی اس کی لپیٹ میں آگئی ہے۔ کانگریس میں جان برینن سے بطور امریکی خفیہ ادارے (سی آئی اے) کے لئے نامزد سربراہ، ہونے والی تصدیقی سماعت کے موقع پر ڈرون حملوں کی مخفیت، قانونیت کے ساتھ ساتھ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں اس کے منفی نتائج کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے۔
امریکی محکمہ انصاف کے ایک میمو کے منکشف ہونے پر یہ بات سامنے آئی ہے امریکہ مشتبہ دہشت گردوں کے قتل کو جائز گردانتا ہے، جس کے بعد امریکی شہری بھی اس مسئلے کو میڈیا کی نظروں میں بھی لے آئے ہیں۔ فنانشل ٹائمز کے ایک ادارئیے میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ امریکہ کس بنیاد پر دوسروں پر انگلی اٹھا سکتا ہے؟ جب کہ اس کا اپنا رویہ جنگجو قسم کا ہے۔ کئی ماہ پہلے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے بھی ڈرون حملوں کو ماروائے عدالت قتل قرار دیا تھا۔ مصنف کی کتاب کا زیادہ تر حصہ اس بحث پر مبنی نہیں بلکہ اس کی توجہ قبائلی معاشرت کی تاریخ اورمحرکات پر زیادہ مرکوز ہے ، جنہیں جغرافیائی و سیاسی تحقیقوں کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ تاہم یہ کتا ب محض ڈرون طیاروں کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کو قبائلی معاشروں پر مسلط کرنے کے حوالے سے ہے۔ پروفیسر احمد نے اس نئی کتاب کے ذریعے بے آوازوں کو آواز دینے کی کوشش کی ہے، ڈرون حملوں ، خودکش حملوں اور اپنے ہی ملک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گولی کا نشانہ بننے والے معصوم عوام کے دکھ درد کو اجاگر کرنے کی سعی ہے۔
مصنف اس وقت امریکی شہر واشنگٹن کی جامعہ میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، پروفیسر صاحب نے بطور پولیٹیکل ایجنٹ وزیرستان میں خدمات انجام دیں ہیں۔ ان کے پیش کردہ وزیرستان ماڈل میں ان کی بحیثیت ماہر بشریات خصوصیات کی جھلک نمایاں ہے، یہ تین بنیادی ستونوں پر مشتمل ہے، جس میں قبائلی معاشروں کے عمائدین ، علماء اور مرکزی حکومت کی نمائندگی کے لئے پولیٹیکل ایجنٹ شامل ہیں۔ ان کے مطابق مسئلے کی جڑ امریکہ کی جانب سے قبائلی عوام پر مسلط کردہ خانہ جنگی اور 2004ء میں پاکستان کا شمالی وزیرستان میں آپریشن ہے، جس کا اختتام تباہی و ناکامی پر ہوا اور پھر ڈرون حملوں نے تو وفاقی حکومت اور وزیرستان قبائل کے مابین امن کے امکانات کی راہ میں مزید فصیل حائل کردی۔
پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ ”میں جانتا ہوں کہ وزیرستان راکھ کے ڈھیر پر ہے جہاں ڈرون حملوں سے موت کا رقص جاری ہے، عالمی میڈیا مقامی موقف لئے بغیر اسے دہشت گردوں کی نرسری گردانتا ہے، قومی رہنما یہاں کبھی آنا گوارا کرتے، نہ ہی قبائلی عوام کے دکھوں کی داد رسی کرتے ہیں۔ دوسری جانب کمیونٹی میں سے مٹھی بھر خودکش حملہ آوروں نے یہاں تباہی کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔
اس بے ترتیب اور مضطرب معاشرے میں تحریک طالبان پاکستان ٹی ٹی پی یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ اپنی کارروائیوں میں اضافہ جاری رکھے۔ ان کی پہلی منزل ایک خود ساختہ ماڈل ہے اور یہ نظم و ترتیب کے ساتھ تینوں ستونوں پر حملہ کرتے ہیں، پروفیسر احمد سمجھتے تھے کہ یہ ستون کبھی ضائع نہیں ہوسکتے، ٹی ٹی پی موثر انداز سے یہ صلاحیتیں رکھتی ہے، یہاں سے انہوں نے نتیجہ اخذ کیاکہ ٹی ٹی پی کو غیرجانبدار ہوکر دیکھا جائے تو مستقبل میں ہونے والی اس طرح کی چیزوں کا تدارک ممکن ہے ۔ یہ ماڈل دردناک، آہستہ مگر یقینی طور پر دوبارہ جمہوریت کی آزادی کے لئے کچھ موزوں تبدیلیوں کے ساتھ بنایاجاسکتا ہے۔
اس مسئلے کو پروفیسر احمد کی وزیرستان ماڈل میں وضع کی گئی منظر کشی کے ساتھ بھی سمجھا جاتا ہے جس میں مثالی اور دلکش ماضی کے لئے خوشگوار لمحات کی مہک آتی ہے اور امن کی بحالی کے لئے دی گئی رائے کے قابل عمل ہونے پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں ۔ اس کا اپنا تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس ماڈل کے تینوں ستون ماضی کی دہائیوں کے تشدد اور زخموں سے متاثر ہوئے۔پھر بھی پروفیسر احمدکی قبائلی تاریخ، ثقافت، ضابطہٴ اخلاق اور پریشانیوں میں گھرے ہوئے قبائل کی مشکلات ہرطرح سے ہمیں پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔ مصنف نے نو آبادیاتی تاریخ کی قسط اور کہانی محسورکن انداز میں تفصیل سے کتاب میں بیان کی ہے۔انہوں نے بہت ہمدردانہ انداز میں قبائل کے خطرناک حالات اور ان کی تاریخی مزاحمت، جس کی کوشش مرکز کی جانب سے ان کی انتظامیہ قائم کرنے کے لئے کی گئی تھی، بیان کی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قبائل بے ترتیب اور بے سمت ہیں جو ان کی ناکامی کی بڑی وجہ ہے۔ ان کے مطابق واشنگٹن نہ صرف قبائلی معاشرے کی فطرت بلکہ ان کی عزت اور بدلے کے تصور کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ ان کی کارروائیوں کے باعث مرکز اور قبائل کے تاریخی طور پر لدھے ہوئے تعلقات کا اختتام بھی انتشار کی شکل میں ہوا۔ امریکہ نے نہ ہی یہ بات تسلیم کیا کہ اس کی پالیسیوں کے باعث تنازع مزید ابتر ہوا بلکہ اس کی موجودہ پالیسیاں صرف مسئلے کو بگاڑ رہی ہیں۔
قبائلی لوگوں پر حملے روایتی قبائلی اور اسلامی برتاوٴ میں تبدیلی کا موجب بن رہے ہیں جس کے نتیجے میں اسکولوں، مسجدوں اور مرکزی انتظامیہ کے علامتی اداروں پر خونی خودکش حملے ہو رہے ہیں، جو پُرتشدد کارروائیوں کو تقویت بخشتے ہیں ۔ یہاں تک کہ القاعدہ پر امریکی جنگ سے عالمی تنازع قبائلی معاشروں اور قوموں پر مسلط کردیا گیا ہے۔پروفیسر احمد کی بنیادی تشویش یہ ہے کہ مرکز اور قبائل کے درمیان اختلافات حل کئے جائیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ختم کرکے امن اور استحکام قائم کیا جائے، چیزیں بدلنے کیلئے یہ سمجھتے ہیں کہ جدید معاشرے کو تنازع کا سیاق و سباق اور تاریخ کو سمجھے اور اپنے اوپر مصنوعی بیرونی نظریہ مسلط نہ کریں اور انہوں نے زور دیا کہ قبائلی ڈھانچے کے خلاف نہیں بلکہ دیرپا امن کیلئے ان کے معاشروں کی تعمیر نو کی جائے۔پروفیسر احمد کی کتاب تہذیبوں کے تصادم اور اسلامی شدت پسندی کاجائزہ پیش کرتی ہے اور انہیں تشدد کی وجہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کرتی ہے۔ ان نظریات کی بنیاد پر امریکہ کی دہشت گردی کی روک تھام کے لئے پالیسی تشکیل پائی جس کا انجام یہ ہوا کہ دوسرے گروپس جن کا القاعدہ سے کوئی واسطہ نہ تھا وہ بھی امریکی امن کی راہ میں حائل ہوگئے۔ دس سال سے زیادہ کا عرصہ گزرجانے کے بعد ان نظریات نے امریکہ کو غلط تذویرات کے ساتھ غلط جنگوں میں کھسیٹا۔ امریکی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے پروفیسر صاحب امریکہ میں مرکزی حکومت اور آخری سطح کے اسٹیک ہولڈرز کے مابین تعلقات کا اثبات میں حوالہ بھی دیتے ہیں۔تاہم ماضی میں امریکی علاقے ہوائی اور پورٹو ریکو میں مقامی انڈینزکی نسل کشی اور افریقی امریکیوں کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھنے کی نظیریں بھی جاویداں ہیں۔ کئی سال گزرنے کے بعد اب جاکر امریکہ نے اپنے باشندوں کو مساوی حقوق اور اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ اپنے ثقافتی ورثے کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں۔ مصنف کے مطابق زخمی دنیا کے زخموں کا مداوا کرنے کے لئے غیر قانونی اور نقصان دہ ڈرون حملوں کو ترک کرکے تھسل یعنی سخت جان قبائل کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے اصولوں پر کاربند ہونا پڑے گا۔ آیا قاری اس تحقیقی مطالعے سے اتفاق رکھتے ہوں یانہیں، اس میں فراہم کردہ معلومات اور تصورات واقعتاً لمبے عرصے تک موضوع بحث بنے رہیں گے۔
تازہ ترین