• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دل پر مژدہ،دماغ شل ، ایسی حا لت میں تحر یر کیوں کر ممکن ہو ۔وطنِ عزیز پر قیامت ٹوٹ چکی ہے ۔انسانیت کی ایسی تذ لیل وحشی چا ر سُو پھیل چکے ہیں ۔بلو چستان کی طرف دماغ جائے تو قبائلی علاقے دماغ سے محو اور اگر کراچی کی سنگینیوں پر نظر رکھیں تو بلو چستان میں آگ اور خون کا کھیل آنکھ اوجھل۔ پنجاب کے اندر بھی وحشیوں کی چاپ سنی جا سکتی ہے۔ خاکم بد ہن اندازے، وسوسے ، اندیشے اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ لاوہ کا بہاؤ ہمارے گر دو نوا ح میں آیاچا ہتا ہے ۔ڈاکٹر علی حیدر کا صدمہ تو میرے اپنے گھر کا ماتم ہے ۔چند ماہ پہلے ہی تو ہمارے لاڈلے بھائی نجیب اللہ خان نیازی کی بینائی بچانے میں اُن کی کئی گھنٹے کی جدوجہد کام آئی ۔وہ تو نماز بھی اہل سنت کے ساتھ ادا کرتے تھے اور کلینک روح پر ور آیات ِ قرآنی سے مزین تھا۔ پیر و مر شد نے تو اشا رہ کیا تھا کہ ایسے دیدہ ور ہزا روں سال کی منت کا نتیجہ ہیں درندوں نے اُن کو پھلنے پھولنے کیوں نہیں دیا؟پھر معصوم بچہ بھی لقمہ اجل ہو چکا ۔کیا قصور تھا؟
چند ماہ کے اندر مر نجاں مرنج پر و فیسر شبیہہ حسین اور صلح جُو شاکر رضوی ایڈ ووکیٹ کی ٹا رگٹ کلنگ کے بعد نہ ختم ہو نے والا سلسلہ جاری ہے۔اہل تشیع کے اس مطالبے میں وزن ہے اگر جنرل اشفاق پر ویز کیانی اور حکومت وقت چاہے تو ٹا رگٹ کلنگ ختم ہو سکتی ہے ۔اگر پہلی وارداتوں کے قا تل پکڑے جاتے تو ڈاکٹر علی حیدر پر حملہ کی جرأت نہ ہوتی ۔ایسی بانجھ ، نا اہل اور کرپٹ حکو مت سے کیا تو قع کی جا سکتی ہے عوام کے لئے پیغام تو یہ ہے کہ جاگتے رہنا حکمرانوں پر نہ چھوڑنا ۔قاتل کون لوگ ہیں؟ بلا مبالغہ امریکی اور انڈین ایجنڈہ روبہ عمل لیکن ان کے دست و پا وحشی تو ہمارے درمیان ہیں ۔اگر یہ مذہبی جنو نیت کا شا خسانہ ہے تو ان کے ڈا نڈے چا ہے کتنے محترم لوگوں سے ملتے ہوں ان کو آہنی شکنجوں میں جکڑنا ہو گا ، نشانِ عبرت بنانا ہو گا ۔ ملک میں موت رقصاں اور سیاستدان عوام کو بے وقوف بنا نے میں مصروف ۔سیاسی بہروپیے مختلف روپ دھار کر قوم کو لو ٹنے ، مارنے کے نئے نئے جتن ایجاد کر رہے ہیں ۔بچپن میں ڈریکولا کی کہانی خوفزدہ کر دیتی تھی طریقہ واردات بہت ہی انو کھا ، ڈریکولا جو رات کی تا ریکی میں قبرستان سے نمو دار ہوتا گہری نیند میں ڈوبی نادر شخصیت منتخب کر تا ، شہ رگ میں اپنے نو کیلے دانت پیوست کر تا یوں سارے جسم کا خون پی لیتا۔شکار یا تو مر جاتا یا ڈریکولا کی شکل میں ڈھل جاتا اور ڈریکولا کی ٹیم کا ممبر بن جاتا ۔
2008کے انتخا بات پر ایک نیا آصف علی زرداری دیکھنے کو ملا بقول مخدوم جا وید ہاشمی ، ڈاکٹر آصف علی زرداری (پی۔ ایچ۔ڈی سیاسیات)کے سامنے باقی قا ئدین طفلِ مکتب ثا بت ہوئے ۔ ساری سیاسی جماعتوں کو دست ِنگر بنایا بلکہ ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا ۔
سیاسی شادیاں نکاح کی محتاج نہیں ہوتیں۔ ان کے نبھایا علیحدگی میں قانون ما نع نہ اخلاق۔ انگریزی میں ایسی شادیاں Marraige of Convenienceکہلاتی ہیں۔ MQM کازرداری صاحب کو داغِ مفارقت عوام کو بے وقوف بنانے کا تسلسل ہی تو ہے ۔ن لیگ سے پا رٹنر شپ پہلے ٹو ٹی یہ علیحدگی اس لیے نہیں کہ اصول آڑے آگئے۔ اصول کی پامالی تو ہماری سیاست کے خمیر میں ہے ۔ بلکہ پارٹنر شپ کا ٹو ٹنا ان عیاروں کے سکرپٹ کا حصہ ہے ۔ پارٹنر شپ سے جو حاصل حصول ہونا تھا وہ ہو چکااور تمام فریقوں نے انسانی جانوں سے لے کر ما ل و اسباب کا خراج ایک دوسرے سے بھی وصول کیا اور 18کروڑ عوام سے بھی لیا ۔اب ڈراپ سین کا آ نا لازمی امر ۔
MQMکی پارٹنر شپ کی علیحدگی بھی انہی اصولوں پر طے ہوئی جس طرح ن لیگ اور پیپلز پارٹی سا ڑھے تین سال شیر و شکر رہنے کے بعد باہمی رضا مندی سے علیحدہ ہوئیں۔ نئی قیادت کا کھٹکا تو تھا نہیں ۔خوا ب خر گوش کے مزے لینے ہی تھے ۔برا ہو عوا م ا لناس کا جو تبدیلی کی آس میں عمران خان پر پِل پڑی اور اس سے زیادہ برا ہو عمران خان کا جس نے ن لیگ کو گہری نیند میں جھنجھوڑ دیا ۔ ساڑھے تین سال ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے رہے۔اپنے اپنے حصے کی ساری وا رداتیں ڈال چکے جن میں اپنی پیٹ پوجا اور عوام الناس کو بے حال کر نا شا مل تھا۔عمران خان کے ظہور نے جب علیحدگی پر مجبور کیا تو پہلے سے تیار شدہ سکرپٹ تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ نا فذ ا لعمل کرنا پڑا ۔
قا ئدین جو اٹھا رہ کروڑ لو گوں کو کیڑے مکو ڑوں اور بھیڑ بکریوں کے گلّے سے زیادہ اہمیت دینے پر تیار نہیں وہ اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ امریکی ایجنڈے کی تکمیل ، مو جو دہ نظام کے توا زن کو بر قرار رکھنے اور اپنی من ما نیوں کے لئے عوام کو کو لہو کا بیل بنے رہنا ہی ان کے مفاد میں ہے۔عوام کی طاقت جو حکمرانوں کی اصل طاقت تھی قائدین آج اُسکو اپنی کمزوری سمجھ بیٹھے ہیں۔چنانچہ عوام کو بے بس اور بے حس بنانے میں ہمہ تن مصروف ۔
قوم نے حق رائے دہی مشرف کے خلاف استعمال کیا۔بد قسمتی سے قرعہ فال قا ئدین کے نام نکلا ۔قا ئدین نے ہمیشہ کی طرح عوام کی تباہ حا لی کو اپنا وطیرہ بنایا اور پانچ سال میں کئی روپ بدلے البتہ ایک روپ جو کاروبار بڑھا نا اور سیاسی اٹھا ئی گیری آج بھی طرہ امتیاز ہے۔ مشرف اقتدارکے آ خری سال سے سبق سیکھو جب مقدر ہار اتو تدبیریں بھی اُلٹ گئیں۔ ایام کی گر دش نے جنرل صا حب کا ڈھول بجا دیا ، سا لوں کی ڈھیلی رسی گلے کا پھندہ بن گئی ۔ قا ئدین تو ملک سے بھاگ کر فائیو اسٹار فراری کیمپوں میں قیام سے قبل اٹھا رہ کروڑ عوام کو مشرف دور کی طویل اور تاریک رات کا حصہ بنا گئے ۔ بات تو شا ید گناہ کی ہے لیکن قا ئدین کے بھیانک انجام کے لئے ان کے مقدر کا ٹھیکہ شایدقدرت نے امریکہ بہادر کے سپرد کر دیا ۔چنانچہ قائدین کے کاتب ِتقدیر نے فیصلہ دیا کہ سیاسی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے جمہوری تڑکہ ضروری ہے ۔امریکیوں نے اگلے دنوں میں جو ظلم ڈھانے ہیں اس کے لئے حکمرانوں کا یہی ٹو لہ آج بھی اُنکی ضرورت ہے ۔
ایم کیو ایم اور ن لیگ کی پیپلز پارٹی سے علیحدگی قوم سے بھونڈا مذاق نہیں تو اور کیا ہے ۔یہ کوئی الحمرا ہال کا اسٹیج ڈرامہ تو ہے نہیں کہ ایک وقت آپ ہیرو کا رول ادا کر رہے ہوں اور دوسرے پارٹ میں آپ وِلن بن کر آ جائیں قوم کا تمسخر اڑا نا کب بند ہو گا ۔پنجاب میں عمران خان کا راستہ روکنے کے لئے پارٹنر شپ توڑی گئی اور اب سندھی قوم پرستوں کا دل پسیجنے کے لئے ایم کیوایم کو اپو زیشن کا رول ادا کرنے کی ٹھا نی گئی۔ اے اہل اقتدار رحم، رحم! ملک آ تش فشاں کے دہانے پر ہے ۔ تمہاری لالچ ، طمع اور نا اہلی نے عوام ا لناس کو بے دست و پا کر دیا ہے ۔اگر تم اللہ کی گرفت میں آ گئے تو زمینی خدا کسی کام نہیں آ ئیں گے ۔
”کہ ایک تد بیر تم بناتے ہو اور ایک تد بیر تمہارا رب بناتا ہے ۔تد بیر صرف وہی کا میاب ہو تی ہے جو ذاتِ باری تعالیٰ بناتاہے “مزید فرمایا ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک مکڑی (عنکبوت )اپنی حفاظت کے لئے ایک قلعہ نما گھر تیار کرتی ہے ۔اے نبی تم دیکھتے نہیں کتنا نا پا ئیدار گھر ہے اس مکڑی کا(القرآن)
ہماری حکمران اشرافیہ جو زمینی خداؤں کو اپنا مر جع و ماویٰ سمجھ بیٹھے یہ جاننے سے قا صر ہیں کہ جب ا للہ کی تد بیر حرکت میں ا ٓئی تو یہ مکار اپنے زمینی خداؤں سمیت منہ کے بل اُوندھے پڑے ہوں گے ۔
تازہ ترین