• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرکسی کا خیال ہے کہ وعظ ،نصیحت یا دلائل کے زور پر اس ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ ”بھرے “ ہوئے سگریٹ پینا چھوڑ دے اور محلے میں چھوٹے گوشت کی دکان کر لے ۔”ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے “ اور ”کوئی مسلمان دہشت گردی نہیں کر سکتا “ جیسی خوبصورت باتیں ان لوگوں کے لئے بے معنی ہیں جو آٹھ سو کلو بارود سے بھری گاڑیاں مارکیٹوں میں لا کر دھماکے سے اڑاتے ہیں اور پھر اپنے اس کارنامے کا فخریہ انداز میں اعلان بھی کرتے ہیں ۔انہیں گرفتار کرنا تو دور کی بات ،کوئی مائی کا لعل ان کا نام لینے کی بھی جرأت نہیں کرسکتا ۔اگر ان میں سے کبھی کوئی گرفتار ہو جائے تو عدالت سے ”عدم ثبوت“ کی بنا ء پر یوں با عزت بری ہو جاتا ہے جیسے وہ کوئی دودھ پیتا بچہ تھا جسے پولیس نے ریپ کے الزام میں غلطی سے دھر لیا ۔یہی نہیں بلکہ عدالت سے رہا ہونے کے بعد وہ حکومتی حفاظت میں پورے طمطراق سے یوں پھرتا ہے جیسے حکومت کا داماد ہو۔اور جب حکومت سے پوچھا جائے کہ صاحب یہ کیا ہے تو جواب ملتا ہے کہ ”عدالت نے چھوڑا ہے ،ہم کیا کر سکتے ہیں ؟“کتنی معصوم ہے حکومت!
اگر کسی کا خیال ہے کہ جو لوگ دہشت گردی ،ٹارگٹ کلنگ یا فرقہ واریت کی زد میں آ کر ہلاک ہوتے ہیں وہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہوتے ہیں اور ہم اس لئے بچ جائیں گے کیونکہ ہم اس سیارے میں نہیں رہتے یا ہم نے اپنی حفاظت کے لئے بلٹ پروف گاڑیاں اور حفاظتی محافظ رکھے ہوئے ہیں یا ہمارا تعلق اس فرقے سے نہیں جس کا قتل عام ہو رہا ہے یا ہم نے ایسی ہاؤسنگ سکیم میں گھر لے رکھا ہے جہاں 24/7فول پروف سیکورٹی سسٹم ہے یا آبادی کی مناسبت سے اس قسم کے حادثات میں ہمارے مرنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے تو ایسے لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ صبح ناشتے میں بھنگ گھوٹ کر پینا شروع کر دیں ،اس سے ہاضمہ بھی درست ہوگا اور سارادن اس خوش فہمی میں گذرے گا کہ دہشت گردی میں ہلاک ہونے والوں کی خبر میں ہمارا ”ٹکر“ نہیں چل سکتا۔جب دور کسی گلی میں کتا بھونکتا ہے تو ہم جان بوجھ کر سوئے رہتے ہیں کہ وہ ہماری گلی میں نہیں بھونک رہا ،لیکن جب کتا ہماری گلی میں بھونکتا ہے تو پھر سوئے رہنے سے کام نہیں چلتا کیونکہ اب اس دور کی گلی سے ہمارے لئے بھی کوئی نہیں آئے گا۔
اگر کسی کا خیال ہے کہ وطن عزیز میں مسلک کی بنیاد پرشہریوں کے قتل عام سے بڑا مسئلہ فحاشی اور عریانی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ فوری طور پر اس ملک کی امیگریشن کے لئے درخواست دائر کر دے جہاں سنیما گھر نام کی کوئی چیز نہیں اور جہاں عورت کے کار چلانے پر پابندی ہے ،اس سے ہمارے ان ”صالحین“ کا ایمان بھی محفوظ ہو جائے گا اور آخرت بھی آٹو میٹیکلی سنور جائے گی ۔مگر افسوس کہ وہ ملک آسانی سے مسلمان مہاجرین کو شہریت نہیں دیتا۔سو باامر مجبوری ،یہیں رہ کر فحاشی کے خلاف جہاد کرنا ہوگا اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ دہشت گردی اور غربت جیسی ”فحش اداکاراؤں “کے سامنے سے نظریں نیچی رکھ کے گزر جائیں مبادا ان کے کھلے گریبان ہمیں شرما نہ دیں۔اسی طرح ہمیں یہ بھی چاہئے کہ نجی ٹی وی چینلز پر چلنے والے رقص و سرور کے پروگراموں کے خلاف بھرپور مہم چلائیں ،پیمرا کو شرم دلائیں،عوام کی غیرت کو للکاریں، بچی کھچی اخلاقی اقدار کا واسطہ دیں اور مخالف نقطہ نظر رکھنے والوں کو اپنی ذاتی پارسائی کے طعنے دے دے کر مار ڈالیں۔اس حکمت عملی سے دہشت گردی اور فرقہ واریت ختم ہو نہ ہو،فحاشی ایک دن ضرور ختم ہو جائے گی ۔اگر کسی کا خیال ہے کہ ملک میں جاری دہشت گردی دراصل غیر ملکی طاقتوں کی واحد اسلامی مملکت کے خلاف سازش ہے جس کا مقصد ہمارے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنا ہے تواسے چاہئے کہ رات کو سونے سے پہلے ایک چمچ خمیرہ مروا رید چاٹ لیا کرے ۔فائدہ اس سے یہ ہوگا کہ سازش کرنے والے یہود و ہنود کی شکلیں خواب میں واضح ہو جائیں گی اور پھر ہم نہایت ہوشیاری سے ان کا قلع قمع کرتے ہوئے بحر ظلمات میں گھوڑے ،گدھے اور خچر وغیرہ دوڑاتے چلے جائیں گے۔اور اگر ہمیں یہ چوپائے پسند نہیں تو کوئی بات نہیں، ہم دو پیروں والے انسانوں کی لاشوں کا پل بناکر سر پٹ دوڑتے ہوئے بھی یہ کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں ، شرط یہ ہے کہ لاشیں مخالف فرقے کے لوگوں کی ہوں!
اگر کسی کا خیال ہے کہ اس ملک میں آسمان سے ایک مسیحا نازل ہوگا جس نے زرہ بکتر پہن رکھی ہوگی ،اس کے ایک ہاتھ میں تلوار ہوگی ،دوسرے میں گھوڑے کی لگام اور وہ یک جنبش تلوار سے دہشت گردی کے عفریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا تو ان خیالات کے حامل مردِ با صفا کو چاہئے کہ اپنے لئے اولاد نرینہ کی خواہش کی تکمیل کے لئے ذاتی کوشش کی بجائے ایسے ہی کسی مسیحا کا انتظار کرے ،اللہ کرم فرمائے گا۔ہمارے خیا ل میں چونکہ ملکی مسائل کی بنیادی وجہ لیڈر شپ کا فقدان ہے اس لئے سال کے 365دن ہمیں ایک لیڈر کی ضرورت رہتی ہے ۔اول تو کوئی لیڈر آسانی سے ہمارے کڑے معیار پر پورا نہیں اترتا اور جو بیچارہ رو پیٹ کر پورا اترتا ہے اسے ہم پھانسی پر چڑھا دیتے ہیں،ملک بدر کر وا دیتے ہیں یا پھر خود کش دھماکے میں اڑاکر دیتے ہیں ۔اپنے لیڈر کے بارے میں ہم اس قدر سفاک واقع ہوئے ہیں کہ اس کے لئے یہ بات بھی طعنہ بنا لیتے ہیں کہ وہ ملک بدر کیوں ہوا ،پھانسی پر کیوں نہیں چڑھ گیا !حالانکہ خود ہمیں علاقے کا ایس ایچ او فقط کسی ملزم کی شناخت پریڈ کے لئے بھی تھانے بلا لے تو ہمت نہیں پڑتی کہ تھانے کے آگے سے بھی گذر جائیں۔
اگرکسی کا خیال ہے کہ اس ملک کے عوام بے غیرت اور بزدل ہیں جو ظلم و بربریت کے خلاف مزاحمت کی ہمت نہیں رکھتے لہٰذا ان پر خدا کا قہر نازل ہو گا جس کے نتیجے میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی تو ایسے لوگوں کے لئے عرض ہے کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے معصوم بچوں، عورتوں اور مردوں کی جلی اور کٹی پھٹی خون میں لتھڑی لاشیں دیکھ کر بتائے کہ عذاب کی اور کون سی قسم ہے جو ان بیچاروں پر ابھی نازل ہونی باقی ہے ؟صبح و شام ٹی وی پر خون آلود لاشیں دیکھ کر کیا ہمارا دل نہیں بھرتا جو ہمیں مزید ”خون کی ندیاں “ درکار ہیں ؟ آخر یہ محاورہ ہمیں اس قدر عزیز کیوں ہے کہ ہم اٹھتے بیٹھتے لا پرواہی سے اس کا استعمال کرتے ہیں جیسے ان ندیوں میں انسانوں کا نہیں حرام جانوروں کا خون بہے گا!
اگر کسی کا خیال ہے کہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ قبول کرنے والوں کو گرفتار کر کے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا جہاں انہیں پھانسی کی سزا ہو گی تو ایسے معصوم شخص کو مشورہ ہے کہ یقینا اس کا کوئی پیار ا کسی خودکش دھماکے میں مارا گیا ہوگا جو وہ ایسی امید رکھتا ہے۔ایسے بھولے بھالے شخص کو چاہئے کہ حکومت سے ملنے والے معاوضے کی مددسے کسی ”کافر“ ملک کا ویزا اپلائی کر کے پتلی گلی سے نکل جائے ورنہ اگلے مہینے اس کے لواحقین اس کی لاش سامنے رکھ کر بین کر رہے ہوں گے اور حکومت سے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہوں گے کہ جب تک دہشت گردوں کے خلاف کاروائی نہیں کی جائے گی ،ہم اپنے پیاروں کی لاشیں نہیں دفنائیں گے ۔اور پھربالآخر انہیں لاشیں دفنانی پڑیں گی اور اگلے حملے کا انتظا ر کرنا ہوگا۔
تازہ ترین