• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کےٹی وی ڈراموں کی دِل کشی میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب تعلیم یافتہ نوجوان لڑکے، لڑکیاں شوبز انڈسڑی کو بہ طور کیریئر اپناکر شہرت کے آسمان پر ستاروں کی مانند جگمگا رہے ہیں۔ 

ان ہی چمکتے دمکتےستاروں میں ٹی وی نگری کی نئی شہزادی، باربی ڈول جیسی زُباب رانا بھی ہیں، جنہوں نے صرف دو ڈھائی برس قبل شوبز انڈسٹری میں قدم رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے مُلک گیر شہرت حاصل کرلی۔زُباب خود کو پیدایشی آرٹسٹ کہتی ہیں۔ 

اُن کا کہناہے کہ اداکاری ایک خداداد صلاحیت ہے، جسے سیکھنے کے لیے کسی اکیڈمی میں داخلہ نہیں لینا پڑتا۔اس کی مثال دلیپ کمار، ندیم، وحیدمُراد، شبنم اور زیبا ہیں، جنہوں نے کسی اکیڈمی سے اداکاری کی تربیت حاصل نہیں کی، اس کے باوجود طویل عرصے تک فَن کی دُنیا پر راج کیا۔

زُباب نے شہرت کی بُلندیاں چُھونے کا خواب پورا کرنے کے لیے ٹیلی ویژن انڈسٹری کا انتخاب کیا،مگر کیرئیر کا آغاز لاہور سے بطور ماڈل کیا۔کچھ عرصے بعد وہ کراچی آگئیں اور ایک کے بعد ایک سیریل میں یادگار کردار ادا کیے۔ ڈراما سیریل ’’نصیبوں جلی‘‘، ’’میرے خدایا‘‘ اور ’’بندش‘‘ میں ناقابلِ فراموش کردار نگاری کا مظاہرہ کیا۔زُباب کے دیگر ڈراموں میں’’ محبوب آپ کے قدموں میں‘‘،’’ خالہ کی بیٹیاں‘‘ اور’’ رشتے بِکتے ہیں‘‘ شامل ہیں۔ زُباب نے کئی منجھے ہوئے فن کاروں کے سامنے جم کر اداکاری کی اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 

وہ جاوید شیخ، روبینہ اشرف اور شگفتہ اعجاز کے ساتھ مختلف ڈراموں میں کام کرچُکی ہیں۔نیز، ڈراموں کے علاوہ ٹی وی کمرشلز اور فیشن شوز میں بھی گاہے بگاہے حصّہ لیتی رہتی ہیں۔ انہیں مقبول ڈرامے’’میرے خدایا‘‘ میں عُمدہ پرفارمینس پر ’’لکس اسٹائل ایوارڈ‘‘ کے لیے بھی نام زد کیا گیا۔ گزشتہ دِنوں ہم نے کومل، سندر، معصوم سی زُباب رانا سے جنگ، سنڈے میگزین کے مقبولِ عام سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے ایک انٹرویو کیا، جس کی تفصیل نذرِ قارئین ہے۔

جب اچھا لڑکا مل گیا، شادی کر لوں گی
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س : خاندان ، ابتدائی تعلیم وتربیت سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج:مَیں3جون 1988ء کو لاہور میں پیدا ہوئی۔ فیملی بہت چھوٹی ہے ۔ ہم دو بہنیں اور ایک بھائی ہی والد اور والدہ کی جاگیر ہیں۔ بڑی بہن کی شادی ہوچُکی اور سب سے چھوٹی ہونے کے ناتے مَیں گھر میں سب کی لاڈلی ہوں،تو دوستوں کی بےحد چہیتی بھی۔رہی بات ابتدائی تعلیم کی، تولاہور سے حاصل کی،بلکہ کر رہی ہوں۔ مَیں پنجاب یونی ورسٹی،لاہورمیں بی ایس آنرز کی طالبہ ہوں۔

س:آپ کا نام کس نے رکھا اور اس کا مطلب کیا ہے؟

ج:والد کے ایک قریبی دوست،جو ایران میں رہایش پذیر ہیں، انہوں نے زُباب نام رکھا ۔ مجھے لگتا ہےپاکستان میں بھی کم ہی لوگوں کا یہ نام ہوگا۔اس کامطلب جو مجھے بتایا گیا ، وہ ’’شہد کی مکھی‘‘ ہے۔ ابتدا میں تو سب کے لیے یہ نام نیا تھا، اب سب کو پسند آتا ہے۔

س : بچپن میں کیسی طالبہ تھیں ، پڑھاکو یا …؟

ج:بچپن میں پڑھائی میں دِل نہیں لگتا تھا، البتہ جب تھوڑی سمجھ دار ہوئی، تو احساس ہوا کہ زندگی میں اچھا مقام حاصل کرنے کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے، توتب سے بہت محنت کر رہی ہوں۔

س:بچپن کیسا تھا؟

ج:بچپن کی کچھ یادیں تو بہت اچھی ہیں، البتہ بعض باتوں کے منفی اثرات اب بھی زندگی میں باقی ہیں۔ ویسے بچپن کا دَور ٹینشن فِری ہی ہوتا ہے۔ کچھ بھی کھا پی سکتے ہیں، جب تک دِل چاہا، نیند پوری کی۔اب توبڑے جھنجھٹ ہیں۔

س:خاندان کا کوئی اور فرد بھی اس فیلڈ سے وابستہ ہے؟

ج:میری سات نسلوں میں،کسی کا تعلق شوبزانڈسٹری سے نہیں ۔

س: آپ کی آمد کیسے ہوئی؟

ج:مَیں بس حادثاتی طور پر آگئی۔ اصل میں مَیں ایک روز گھر بیٹھی ڈراما دیکھ رہی تھی کہ ایک معروف پروڈکشن ہاؤس سےکال آئی۔انہوں نے میرا نمبر کہیں سے لیا تھا۔اُ س سے پہلے مَیں ماڈلنگ میں کسی حد تک پہچان بنا چُکی تھی، اداکاری کا جنون کی حد تک شوق تھا،مگر موقع نہیں ملا تھا۔ اُس روز کال آئی توپھر ڈراما سیریل ’’نصیبوں جَلی‘‘ میں کاسٹ کیا گیا۔

س : زندگی کی پہلی کمائی کتنی تھی ؟ پیسا خرچ کرتے وقت سوچتی ہیں ؟

ج:پہلا چیک دس ہزار روپے کا ملا،جس کی خوشی دس لاکھ روپے جیسی تھی۔وہ رقم مَیں نے خود ہی پرخرچ کی ۔جب میرے پاس بہت زیادہ پیسے ہوں، تو خرچ کرتے بالکل نہیں سوچتی، البتہ کم ہوں، توسوچ سمجھ کر خرچ کرتی ہوں۔

س:شوبز انڈسٹری میں وارد ہوئے کتنا عرصہ بیت گیا ؟

ج:وہ ایک بڑا مشہور گانا ہے ناں کہ’’ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے‘‘ توابھی تواس فیلڈسے وابستہ ہوئےصرف دو برس ہوئے ہیں۔ بس قسمت کی دھنی ہوں کہ اتنے کم عرصے میں مجھے لیڈنگ رول مل گئے،تو جلدی پہچان بھی حاصل ہو گئی۔

س:کتنے ڈراماسیریلز میں کام کرچُکی ہیں اورکردار کس نوعیت کے تھے؟

ج:پہلا ڈراما سیریل’’نصیبوں جَلی‘‘ تھا، جس میں لیڈنگ رول کیا۔ دوسرا ڈراما ’’میرے خدایا‘‘ تھا، جس کے بعد لکس اسٹائل ایوارڈ کے لیے بھی نام زد ہوئی۔ تیسرا قابلِ ذکر ڈراما سیریل ’’بندش‘‘ہے، جس کا سیزن ٹو بھی جلد شروع ہوگا۔

س:ہمارے یہاں اکیڈمیز کا فقدان ہے، آپ نے اداکاری کی تربیت کہاں سے حاصل کی؟

ج:میرا ماننا ہے کہ فن کار پیدایشی ہوتا ہے اور اداکاری ایک خداداد صلاحیت ہے، جس کے لیے کسی اکیڈمی میں داخلے کی ضرورت نہیں۔اور مَیں نے کسی اکیڈمی سے تربیت حاصل نہیں کی۔

س:فیلڈ میں آنے کے بعد ذاتی زندگی متاثر ہوئی؟

ج:جی، ابتدا میں تو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،کیوں کہ میں مینجمینٹ میں زیرو تھی، مگر اب چیزوں کو مینیج کرنا سیکھ لیا ہے۔

س:شوبز کی دُنیا میں کہاں پہنچنا چاہتی ہیں، کوئی منزل طے کر رکھی ہے؟

ج: منصوبہ بندی تو ہر انسان کرتا ہے۔ مجھے بہت اچھی ایکٹریس بننا ہے، لیکن نمبروَن ہیروئن بننے کا کوئی شوق نہیں۔

س:پانچ برس بعد خود کو کہاں دیکھ رہی ہیں؟

ج:بہت دُور کا نہیں سوچتی، قدرت جہاں لے جائے گی، چلی جائوں گی۔

س: اہلِ خانہ آپ کے ڈراموں پر تنقید کرتے ہیں یا تعریف ؟

ج:حیرت کی بات بتائوں، میری فیملی کو میری اداکاری سے کوئی دِل چسپی نہیں۔ وہ میرے ڈرامے دیکھتے ہی نہیں ہیں۔ سو، اپنی بہترین ناقد، مَیں خود ہی ہوں۔

س: ستارہ کون سا ہے، سال گرہ مناتی ہیں؟

ج: میرا ستارہ جوزا (Gemini)ہے۔ مگر سال گرہ قطعاً نہیں مناتی، ہاں البتہ فیس بُک پر ضرور منائی جاتی ہے۔

س: آپ کی شکل حرامانی سے بہت ملتی ہے۔ ایک ڈرامے میں اُن کی بہن بنیں، تو بالکل سگی بہن معلوم ہوئیں،کیا اُن سے کوئی رشتے داری ہے؟

ج: نہیں، ویسے وہ مجھےبہن ہی کی طرح عزیز ہیں۔

س:چوبیس گھنٹے کس طرح گزرتے ہیں؟

ج:اگر گھر پر ہوں، تو فیملی اور فرینڈز کو وقت دیتی ہوں اور جب شُوٹ پر ہوں، تو ساری توجّہ کام پررہتی ہے۔

س:عام طور پر فن کار رات دیر تک جاگتے ہیں، توپھر اُٹھتے بھی تاخیرسےہیں، آپ کی صُبح کب ہوتی ہے؟

ج:مَیں بھی ’’مارننگ پرسن‘‘ بالکل نہیں ہوں۔ میری صُبح عام طور پر دوپہر میں ہوتی ہے۔ اُٹھ کر جِم جاتی ہوں، اس کے بعد شُوٹس وغیرہ میں مصروف ہوجاتی ہوں۔

س:آپ کے پسندیدہ مشاغل کیاہیں؟

ج:نیند پوری کرنااور دُنیا گھومنا ۔

س: بچپن کا کوئی ایسا واقعہ، جسے یاد کر کے آج بھی لبوں پر مُسکراہٹ آ جاتی ہو؟

ج:میرا اسکول میں دِل نہیں لگتا تھا،کوشش ہوتی تھی کلاس سے غائب ہوجاؤں ۔ ایک دن ایسا ہی ہوا، میری والدہ مجھے اسکول چھوڑ کر گئیں، مَیں چوں کہ پڑھائی میں کم زور تھی، تو ٹیچر مجھے کلاس میں سب سے آگے بٹھاتی تھیں، جیسے ہی ٹیچر بچّوں کی کاپیزچیک کرنے پیچھے کی جانب گئیں، مَیں کلاس سےنکلی اور سیدھی گھر آگئی۔ امّی نے پوچھا، تو انھیں بتایا کہ اسکول کی جلدی چُھٹی ہوگئی ہے۔

س: زندگی میں کس کی شُکرگزار ہیں ؟

ج:اللہ کی بے حد شُکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے میری حیثیت سے بڑھ کر نوازا ہے۔

س:کوئی ایسی خواہش جو ابھی تک پوری نہ ہوئی ہو؟

ج:بہت خوش نصیب ہوں کہ ایسی کوئی خواہش نہیں، جو پوری نہ ہوئی ہو۔

س : عشق ومحبّت کا زندگی میں کس حد تک دخل ہے ؟

ج: آج کل تو بس ایسے ہی محبّت ہوجاتی ہے۔ دو دِن کسی کے ساتھ بیٹھے نہیں اور محبّت ہوگئی۔مگر مَیں عشقِ مجازی سے زیادہ عشقِ حقیقی پر یقین رکھتی ہوں۔

س:کام یاب زندگی کا کوئی سُنہرا اُصول ہے؟

ج:حق بات پر ڈٹے رہیں اور نیّت صاف رکھیں۔

س:کون کون سے مُمالک گھوم چُکی ہیں؟

ج:یورپ، دبئی، یو اے ای اور امریکا۔

س : زندگی میں کسی اور مُلک جا بسنے کا موقع ملے، تو کہاں رہنا پسند کریں گی؟

ج:کہیں نہیں،بس اپنے پیارے پاکستان میں۔

س:شادی کا کب ارادہ ہے؟

ج:جب کوئی اچھا لڑکا مل گیا، شادی کرلوں گی۔ مَیں ایسا نہیں سوچتی کہ 40برس کی ہوکر شادی کروں گی۔جو مجھے پسند کرتا ہو، مجھ سے مخلص ہو۔ میرا خیال رکھے،بس ایسا ہی جیون ساتھی چاہیے۔

س:کھانا پکانے میں دِل چسپی ہے؟

ج:کچھ خاص نہیں، بس انڈا فرائی کر لیتی ہوں۔

س:شعر و شاعری سے لگائو ہے؟

ج:بہت زیادہ ۔مرزا غالب اور جون ایلیا کا کلام بہت پسند ہے۔

س:کس بات پر غصّہ آتا ہے؟

ج:جب مَیں لوگوں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلیتی ہوں، تو خود پر بہت غصّہ آتا ہے۔

س: ردِّعمل میں کیا کرتی ہیں؟

ج:زاروقطار رونے لگتی ہوں۔

س:فیصلہ کرتے وقت دِل کی سُنتی ہیں یا دماغ کی؟

ج:مَیں اپنے معصوم سے دِل کی سُنتی ہوں۔ ویسے سُننی دماغ کی چاہیے۔

س:شہرت اور مقبولیت نے آپ کی شخصیت پر کیا اثرات مرتّب کیے؟

ج:مَیں پہلے والی زُباب نہیں رہی، اب ہرکام سوچ سمجھ کر کرنا پڑتا ہے۔

س:انسان قسمت بناتا ہے یا قسمت انسان کو بناتی ہے؟

ج:میرا ماننا ہے کہ قسمت انسان کو بناتی ہے۔

س:اسٹائل وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں؟

ج:جی بالکل، ایسا نہیں کروں، تو میرے مدّاح بور ہوجائیں۔

س:پریشانی سے نکلنے کے لیے کیا کرتی ہیں؟

ج: نمازکی پابندی کرنے لگتی ہوں اور اپنےسب معاملات ربّ پر چھوڑ دیتی ہوں کہ وہ اپنے بندوں سے ستّر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔

س:آپ کی زندگی میں سخت ترین دَور کون سا رہا؟

ج:جب مَیں انڈسٹری میں آنا چاہ رہی تھی اور سب مخالفت کررہے تھے۔

س:والد سے زیادہ قریب ہیں یا والدہ سے؟

ج:دونوں ہی میرے لیے بہت اہم ہیں، مگر امّی سے زیادہ قریب ہوں۔ والدچوں کہ زمین دار ہیں،تو اُنھیں وقت کم ملتا ہے، امّی زیادہ وقت دیتی ہیں۔

س:کسی کو نصیحت کرنے کو کہا جائے، تو کیا کہیںگی؟

ج:یہی کہ اگر آپ کا کوئی کام کوشش کے باوجود نہیں ہورہا ، تواپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپردکردیں۔

س:خود کو کس عمُر کا تصوّر کرتی ہیں؟

ج: 35سے 38برس کا۔

س:آپ کی زندگی کا کوئی راز؟

ج:اگر بتا دیا توپھر راز کیسا،اس لیے دِل کی بات دِل ہی میں رہنے دیں۔

س:پاکستانی فلمیں دیکھنے کا شوق ہے، نئے سینما گھر کیسے لگتے ہیں؟

ج:ہاں، ’’جوانی پھر نہیں آنی‘‘ اور’’ باجی ‘‘ بہت اچھی لگیں۔ کراچی اور لاہور میں اب بہت خُوب صُورت سینما گھر بن گئے ہیں۔

س:بالی وُڈ میں کام کرنے کی خواہش ہے؟

ج:ابھی تو مَیں نے ٹی وی انڈسٹری سے کام کا آغاز کیا ہے، تھوڑی سی سینئر ہوجائوں، پھر سوچوں گی۔

س:پاکستانی فلموں میں کب جلوہ گر ہورہی ہیں؟
ج:
ایک دو پراجیکٹس پر بات ہورہی ہے۔ اسکرپٹ پڑھنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کروں گی۔

س:موسیقی کا کس حد تک شوق ہے؟

ج:مَیں سنجیدہ اور رومانی گیت شوق سے سُنتی ہوں۔ استاد نصرت فتح علی خان، شفقت امانت علی، راحت فتح علی خان اور عاطف اسلم کےگانے بےحد پسند ہیں۔

س:ایک دُعا ،جو ہر وقت لبوں پر رہتی ہے؟

ج: دوستوں اور دشمنوں کے لیے ہمیشہ دُعائے خیرہی رہتی ہے۔

تازہ ترین