• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آنے والے الیکشن کے بارے میں بہت سے مغالطے پائے جاتے ہیں جن میں سب سے پہلا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک پکّا ہے اس لئے عمران خان، طاہر القادری وغیرہ کے عناصر سے اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کے نسبتاً قدامت پرست ووٹر ٹوٹ کر تحریک انصاف اور عوامی تحریک جیسی پارٹیوں کی طرف رجوع کر سکتا ہے ۔ تاریخی طور پر اگر پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک اتنا ہی اٹوٹ ہوتا تو مسلم لیگ (ن) وسطی پنجاب میں کبھی جیت ہی نہیں سکتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا بنیادی ووٹ بینک انیس سو اٹھاسی کے انتخابات کے بعد مسلسل گھٹا ہے۔ پیپلز پارٹی اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ایسے امیدوار لاتی رہی ہے جن کا اپنا بھی ووٹ بینک ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود انیس سو ستتر یا انیس سو اٹھاسی کی سطح پر پہنچ نہیں پائی۔ اس سلسلے میں دوہزار سات کا الیکشن بہت اہم تھا کیونکہ بینظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے باقی ملک کی طرح پنجاب میں بھی اس کے لئے ہمدردی کی شدید لہر تھی لیکن اس کے عدلیہ کے خلاف ایجنڈے کی وجہ سے بینظیر ہمدردی کا اتنا اثر نہیں ہوا اور پیپلز پارٹی کے بہت مضبوط امیدوار تو کامیاب ہو گئے لیکن اس کے مقابلے میں عدلیہ کی مضبوط حمایت کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کے کھمبے بھی جیت گئے۔ اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ساتھ بینظیر کی شہادت جیسی ہمدردی کا کوئی عنصر نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی امکان ہے ۔پیپلز پارٹی کے درجنوں منتخب نمائندے پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں جا رہے ہیں جس کی وجہ ووٹروں کا دباوٴ ہے۔
پیپلز پارٹی کے بہت سے ووٹروں کی نظر میں وہ ایک آزاد خیال اسٹیبلشمنٹ دشمن پارٹی تھی لیکن اپنے پچھلے پانچ سالہ دور میں اس نے اپنی اس خصوصیت کو زائل کر لیا ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ سے عمومی طور پر فوج مراد ہوتی ہے تو پیپلز پارٹی کے بارے میں کوئی ایسا تاثر نہیں۔ پیپلز پارٹی کی عدلیہ کے ساتھ مقابلے بازی کو اسٹیبلشمنٹ دشمنی نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس سے اس کو مزید نقصان کی توقع ہے کیونکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری مقبول ترین شخصیت ہیں۔ اس کے الٹ یہ عام تاثر ہے کہ فوج میاں نواز شریف کے سخت خلاف ہے اور ان کو حکومت سے باہر رکھنے کے لئے ہر ہتھکنڈہ استعمال کر رہی ہے۔ اس لئے اب پیپلز پارٹی کے بجائے مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ دشمن پارٹی گردانی جاتی ہے لہٰذا ہر طرح کا اسٹیبلشمنٹ دشمن ووٹر مسلم لیگ (ن) کو ترجیح دے گا جس کا پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک پر گہرا منفی اثر پڑے گا۔پچھلے پانچ سالوں میں میاں نواز شریف نے اپنا قدامت پرست شخصیت کا تاثر بھی بدلا ہے اور بہت سے ترقی پسند اور آزاد خیال حلقے اب ان کو روشن خیال سمجھتے ہیں۔ ان کا ہندوستان کے بارے میں مصالحانہ رویہ، فرقہ پرستی کے خلاف بیانات اور آزاد خیال فورموں کے ساتھ بہتر تعلقات نے ان کے امیج کو کافی تبدیل کیا ہے۔ سندھی ترقی پسندوں اور قوم پرست گروپوں کے ساتھ بھی ان کے پیپلز پارٹی سے بہتر تعلقات ہیں۔یہ بھی مغالطہ ہے کہ عمران خان اور قادری وغیرہ کے ووٹر محض قدامت پرست ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ عمران خان کے اکثر ووٹر پڑھے لکھے سیدھے سادے لوگ ہیں جو ماضی میں پیپلز پارٹی کی بنیاد تھے ۔ قادری کے ووٹروں میں بریلوی پیر پرست زیادہ ہوں گے جن میں سے بہت سے پیپلز پارٹی کے بھی ووٹر رہے ہوں گے کیونکہ وہ جماعت اسلامی یا دیوبندیوں سے کافی فاصلے پر رہتے ہیں۔ ذاتی مباحث میں یہ دلچسپ بات سامنے آئی ہے کہ دیوبندی، اہلحدیث یا جماعت اسلامی کا ووٹر قادری صاحب کی طرف رجوع نہیں کر رہا بلکہ وہ ان کو ایک مضحکہ خیز کردار سمجھتا ہے۔ اس لئے اس طرح کا ووٹر مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گا۔
دوسرا بڑا مغالطہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے سرائیکی صوبہ بنانے کی سیاسی حکمت عملی سے وہ علاقہ اس کی مٹھی میں آجائے گا۔ اگر زمینی حالات کو بغور دیکھیں تو تصویر اس کے الٹ نظر آتی ہے۔ بہاولپور اور بہاولنگر میں تو بہت حد تک غیر سرائیکی ممبران اسمبلی کو جتواتے ہیں ، اسی طرح رحیم یار خان اور جنوبی پنجاب کے کچھ دیگر اضلاع میں آبادکار انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ غرضیکہ غیر سرائیکی ووٹ پیپلز پارٹی کی سرائیکی صوبے کی سیاست کی وجہ سے اس سے بہت دور ہو چکے ہیں لہٰذا وہ پیپلز پارٹی کوتو کسی صورت میں ترجیح نہیں دیں گے۔ (بہاول نگر سے منجھے ہوئے پیپلز پارٹی کے لیڈر افضل سندھو کے پارٹی چھوڑنے سے یہی اخذ کیا جا سکتا ہے) اس کا فائدہ مسلم لیگ (ن) یا کسی دوسری پارٹی کو ہو سکتا ہے۔ سرائیکی بولنے والے علاقوں میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کا کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے کیونکہ عمران خان کی پارٹی کے بڑے شہزور اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سہ طرفہ مقابلے میں بھی زیادہ امکان مسلم لیگ (ن) کے فیضیاب ہونے کا ہے کیونکہ تحریک انصاف پیپلز پارٹی کے کافی ووٹ کاٹے گی۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) قابل انتخاب امیدوار لا سکتی ہے یا نہیں۔ المختصر سرائیکی صوبے کی سیاست کا پیپلز پارٹی کو فائدے کی بجائے نقصان ہونے کا احتمال ہے۔
تیسرا بڑا مغالطہ سندھ کے بارے میں ہے۔ عام تاثر ہے کہ جیسے سندھی ووٹر پیپلز پارٹی کی بے بس منکوحہ کی مانند ہیں اور شاید پیپلز پارٹی خود بھی اسی زعم میں ہے۔ سندھ کو باہر سے دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ سندھی عوام کے پاس پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے، ہمارا مشاہدہ اس کی نفی کرتا ہے۔ سندھی ووٹر بھی باقی ملک کے باشندوں کی طرح اپنے مفادات پر نظر رکھتے ہیں۔ اگر ماضی میں وہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے تھے تو جواب میں یہ پارٹی بھی کسی حد تک سندھی عوام کے حقوق کا تحفظ کرتی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے سندھی زبان کو اس کا جائز مقام دلا کر آج کے سندھ کی نئی تاریخ رقم کی تھی۔ مطلب سندھی بھٹو کو صرف اس لئے ووٹ نہیں دیتے تھے کہ وہ سندھی ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے پنجاب اس لئے نواز شریف کو ووٹ نہیں دیتا کہ وہ محض پنجابی ہیں (پنجابی تو کنونشن اور کونسل مسلم لیگ والے بھی تھے)۔ سندھی ہوں یا پنجابی وہ لیڈروں اور پارٹیوں کو اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر ووٹ دیتے ہیں۔ اسی بنا پر پیپلز پارٹی جیتتی تھی اور یہی وجہ اس الیکشن میں اس کے کم جیتنے کی ہو گی۔
پچھلے پانچ سالوں میں پیپلزپارٹی نے صوبے میں کچھ کرکے نہیں دیا۔ وہاں خلق خدا کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی والوں نے لوٹ کھسوٹ اور قبضہ گیری میں پانچ سال گزار دیئے ہیں۔سندھی عوام پیپلز پارٹی کے ایم کیو ایم کو اتحادی بنانے اور لوکل گورنمنٹ سسٹم کے آرڈیننس سے بہت آزردہ ہیں۔ مزید برآں سندھ کی معاشی سماجیت کی بنیادیں بھی دیہی زرعی نظام سے بدل کر کافی جدید ہو گئی ہی جس سے ایک نئی قسم کا ووٹر پیدا ہوا ہے۔ غالب امکان ہے کہ پیپلز پارٹی بہت سے ووٹ اور سیٹیں کھو دے گی۔ اس کے اولین اشارے پیر پگارا اور نواز شریف کے انتہائی کامیاب جلسوں سے ملتے ہیں۔ ان شواہد کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے واحد بڑی پارٹی ہونے کے امکانات تو رہیں گے لیکن اس کی سیٹیں پہلے کی نسبت بہت کم ہو جائیں گی۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان کے بارے میں بھی اسی طرح کے متفرق مغالطے پائے جاتے ہیں جن کا ذکر کسی اور کالم میں کیا جائے گا۔
تازہ ترین