• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کی زمین اور پاکستانی قوم کے ذہن نہایت زرخیز ہیں۔ سیاسی فضا میں ذرا سی ہلچل ہو تو ہزاروں سازشی کہانیوں کے جراثیم سارے ملک میں پھیل جاتے ہیں اور انکشافات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

کئی دنوں سے پسِ پردہ ’’ڈیل‘‘ کی خبریں گردش کر رہی تھیں لیکن علیل میاں نواز شریف کی ضمانت کے ساتھ ہی خبروں میں تیزی آ گئی ہے چنانچہ ڈیل اور پسِ پردہ سازشوں میں اعلیٰ درجے کی مرچ اور مسالا ڈال کر انکشافات پیش کئے جا رہے ہیں۔ عدالت جتنا مرضی پہلے غصہ جھاڑ لے اور پابندیاں لگا لے لیکن ہمارا زرخیز ذہن افسانہ طرازی سے باز نہیں آئے گا کیونکہ ہماری تاریخ ہی کچھ ایسی ہے۔ مشرف کی بھی میاں فیملی سے ڈیل کچھ اِس خفیہ انداز سے ہوئی تھی کہ اُن کے قریبی دوستوں اور عزیزوں کو بھی بھنک نہیں پڑی تھی۔ چند فیملی ممبرز کے علاوہ باقی لوگوں نے یہ خبر اخبار ہی میں پڑھی۔

پاکستانی حکمرانوں کی ایک خاص نفسیات اور معصوم سی خواہش ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ’’سنجیاں ہون گلیاں وچ مرزا یار پھرے‘‘۔ ایوب خان کے دور سے عمران خان کے دورِ حکومت تک میں نے سبھی حکومتوں کو اور حکمرانوں کو دیکھا ہے۔ سبھی کی خواہش تھی کہ ان کے مخالفین کو ملک بدر کر دیا جائے، جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا جائے، کوئی ایبڈو یا پروڈا جیسا قانون بنا کر زبان بندی کر دی جائے۔

اگر ان میں سے کچھ بھی نہ ہو تو کم از کم ہیر وارث شاہ کی دعا اور خواہش کے مطابق مخالفین کو ’’تاپ (بخار) چڑھ جائے تاکہ سیاست کی گلیاں ویران ہو جائیں، ان ویران گلیوں میں مرزا یار یعنی حکمران سینہ تانے تنہا پھرتا رہے۔ بس وہ صرف اسی صورت ملک و قوم کی خدمت کر سکتا ہے۔ ہر حکمران کے درباری حواری اسے ہمہ وقت یہ لوری دیتے رہتے ہیں کہ حضور تو ماشااللہ کوہ نور کا ہیرا ہیں، حضور تو قائداعظم سے بڑے سیاستدان اور اقبال سے بڑے فلاسفر ہیں، حضور تو اس ملک کو جنت بنا دیں بس اپوزیشن راہ کا سب سے بڑا پتھر ہے ۔ اس بھاری پتھر کو کسی قانون یا ڈیل یا کسی غیر مرئی قوت کے ’’کرین‘‘ سے اٹھا دیا جائے تو قوم آپ کی صلاحیتوں سے مستفید ہو کر آسمان کی بلندیوں کو چھو لے گی۔

عمران خان آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ ہے اور آکسفورڈ نے برطانیہ کے سب سے زیادہ وزرائے اعظم پیدا کئے ہیں۔ دراصل کیمبرج اور آکسفورڈ میں ہمیشہ مقابلہ جاری رہتا ہے کہ کونسی یونیورسٹی کا فارغ التحصیل انگلستان کا وزیراعظم بنتا ہے لیکن کیا کبھی کسی برطانوی وزیراعظم نے کلی اختیارات کی خواہش کا اظہار کیا؟ آمرانہ رجحان کو زبان سے پھسلنے یا بھٹکنے دیا؟ کیا صدیوں پرانی برطانوی جمہوریت میں کوئی ایسا وزیراعظم گزرا جس نے کہا ہو اے کاش میں پچاس یا پانچ سو کرپٹ افراد کو جیلوں میں بند کر سکتا، بس قانون نے میرے ہاتھ پائوں پکڑ رکھے ہیں۔ اپوزیشن کے دبائو نے مجھے بےبس کر رکھا ہے ورنہ میں ملک کو جنت ارضی بنا دیتا، نہ کوئی بھوکا رہتا، نہ بیروزگار، نہ مہنگائی ہوتی، نہ کرپشن، صرف دودھ میں دھلے وزیر بنتے۔

بات صرف ڈگری سے نہیں بنتی، تربیت ڈگری سے کہیں زیادہ اہم ہوتی ہے۔ جمہوری معاشروں میں سیاسی کارکنوں کی جمہوری اقدار میں تربیت ہوتی ہے اور جس طرح ریاضت و عبادت اور چلہ کشی انسان کے اندر موجود نفس کو مار دیتی ہے اسی طرح جمہوری معاشرے اپنے سیاستدانوں کے باطن میں موجود آمریت کی آرزو کو مار دیتے ہیں۔ 1996میں ایک ہفتے کے لیے میں امریکہ کی مشہور یونیورسٹی برکلے کا مہمان تھا۔

ایک دن انڈر گریجویٹ طلبا کو لیکچر دے کر سوالات کی دعوت دی تو ایک گورے طالب علم نے پوچھا ’’بھٹو برکلے کا فارغ التحصیل تھا لیکن جب پاکستان کا وزیراعظم بنا تو اس نے آمرانہ انداز میں جاگیردار کی مانند حکومت چلائی۔ کیوں؟‘‘ میرا یہی جواب تھا کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت نہایت ضروری ہوتی ہے۔ اول تو پاکستانی معاشرہ ابھی تک فیوڈل معاشرہ ہے، دوم بھٹو کی سیاسی تربیت ایوب خان کے آمرانہ دور حکومت میں ہوئی، تیسرے بھٹو نے جاگیردارانہ اور انتقام پرستانہ روایات ورثے میں پائی تھیں چنانچہ نتیجہ ظاہر ہے‘‘۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کے ہر حکمران کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے مخالفین کسی بہانے ملک بدر ہو جائیں یا جیل چلے جائیں تاکہ سیاست کی گلیاں سُنجی (ویران) ہو جائیں اور وچ مرزا یار بلاخوف وخطر پھرے۔

ایوب خان نے اپنے سب سے بڑے مخالف حسین شہید سہروردی کو پہلے جیل بھیجا پھر وہ بسلسلہ علاج بیروت چلا گیا اور وہیں اس کا انتقال ہو گیا۔ باقی سیاستدانوں کو قانونی شکنجوں میں جکڑ کر نااہل کر دیا اور زبانوں پہ تالے لگا دیئے۔ ضیاء الحق نے کوڑے کے ذریعے پیپلز پارٹی کے ’’بیج‘‘ کو ختم کرنے کی کوششیں کیں، بھٹو کو پھانسی چڑھا کر بھٹو فیملی کو باہر بھجوا دیا۔ اس وقت بھی ڈیل کی خبر اڑی تھی۔ مشرف نے نواز شریف اور بے نظیر دونوں کو ملک سے باہر رکھا۔ اس لئے جب کبھی پاکستان کے زرخیز ذہنوں سے اس طرح کی خبر ’’پیدا‘‘ ہوتی ہے کہ ملک میں صدارتی نظام آ رہا ہے یا حکومت کے مخالفین ڈیل کرکے بیرون ملک جا رہے ہیں تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہوتی۔

بس یہ سوچ کر اپنے آپ میں کھو جاتا ہوں کہ نہ جانے اس ملک اور اس قوم کا مقدر کب بدلے گا؟ ہر حکمران نے کلی اختیارات کی خواہش کی تاکہ وہ پاکستان کو جنت ارضی بنا سکے لیکن حکمران کی یہ خواہش پوری ہونے کے باوجود ملک جنت ارضی بننے کے بجائے ’’مسائلستان‘‘ بنتا چلا گیا۔ جہاں نظام کی ایک ’’کل‘‘ بھی سیدھی نہیں رہی۔ ملک لاقانونیت، کرپشن، قرضہ جات، بیرونی اور اندرونی غیر سیاسی قوتوں کی غلامی اور افلاس کا جزیرہ بن کر رہ گیا ہے۔

حکمرانوں کے لاکھوں تردیدی بیانات کے باوجود ایک بار پھر ڈیل کی خبریں گرم ہیں۔ اربوں ڈالر کی واپسی کی افواہیں ہیں، سوشل میڈیا پر ’’طریقہ واردات‘‘ بھی بےنقاب کیا جا رہا ہے۔ ضمانتی قوتوں کا بھی ذکر ہو رہا ہے۔ نظام بدلنے کا ڈول بھی ڈالا جا رہا ہے۔

یار لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں تو یہی کہتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے۔

تازہ ترین