• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات جاننے کے لئے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم اس وقت تک ترقی یافتہ ممالک کی گرد بھی نہیں پا سکتے جب تک ہم عصری علوم سے آشنا نہیں ہوتے اور ہمارے اندر کوئی نظریاتی انقلاب نہیں آتا۔ ہمارے روبہ زوال ہونے کی وجہ جدید نظام فکر کا فقدان اور غیر ترقی یافتہ سوچ کا حامل ہونا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ اگر ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان حالات میں ہم بیدار ہو جائیں گے، عصری علوم حاصل کر لیں گے، سائنس میں نام پیدا کریں گے تو ایسا نہیں ہے، ہم تو طاقت ’’ہر قیمت پر ضرور حاصل کرو‘‘ اور جس وقت جس نعرے میں فائدہ ہو اس کے ہم نوا بن جائو اور حقیقتاً جو لوگ نیکی، سچائی کے قائل ہوں، ان کا منہ کالا کرتے چلے جائو اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھتے جائو کہ ’’کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے‘‘کے قائل ہیں۔ اقبال نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ ’’کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور‘‘ اب اس کا کیا کیا جائے کہ یہاں ہر کرگس اپنے آپ کو شاہین ثابت کرنے میں مصروف ہے اسی لئے تو کہتے ہیں کہ جذبے کا مظاہرہ اور شوق کا ثبوت سب سے مشکل کام ہے۔

یہ جو اہل نقد و نظر فرماتے ہیں کہ تعلیم کا بنیادی مقصد ہوتا ہے معاشرے کے مسائل کا حل تلاش کرنا اور یہ کام خصوصیت سے سماجی علوم کے ذریعے ہو پاتا ہے کہ جو سیاسی، سماجی اور ثقافتی مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں اور پھر ذہنی طور پر معاشرے کو باشعور بناتے ہیں تاکہ ان مسائل کو سمجھا جا سکے اور ان پر قابو پایا جا سکے۔ پاکستان میں اس وقت ’’علوم‘‘ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ جن سماجی مسائل سے دوچار ہے ان کی نشاندہی تک نہیں ہو پا رہی اور کسی مسئلے کا حل اسی وقت ممکن ہے کہ جب اس کو پوری طرح سے سمجھا جائے۔ تو آیئے بڑے لوگوں کی بڑی بڑی باتوں سے ہم ان مسائل کی نشاندہی کی کوشش کریں اور اپنے ہم وطنوں کی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر نگاہ ڈالیں۔

کسی نے پوچھا ’’بارش کا فائدہ کیا ہے؟‘‘ جواب دیا۔ ’’میرا کھیت سیراب ہوتا ہے‘‘۔ اس نے پھر پوچھا۔ ’’بارش کا کیا نقصان ہے؟‘‘۔ جواب دیا۔ ’’میرے بھائی کا کھیت سیراب ہوتا ہے۔‘‘ جوتے بیچنے والی دو کمپنیوں نے اپنے اپنے سیلزمین ایک گائوں میں بھیجے کہ دیکھ کر آئو کہ وہاں جوتے بیچنے کے کیا مواقع ہیں۔ کتنی کھپت ہے۔ جب دونوں سیلزمین وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ گائوں والے جوتے استعمال ہی نہیں کرتے، سب ننگے پیر ہی رہتے ہیں۔ ایک سیلزمین نے اپنی کمپنی کو تار دیا کہ یہاں تو جوتے پہننے کا رواج ہی نہیں ہے لہٰذا جوتے بیچنے کے مواقع نہیں ہیں۔ دوسرے سیلزمین نے ایکسپریس تار بھیجا۔ ’’جوتے بیچنے کے زبردست مواقع ہیں کیونکہ یہاں کسی کے پاس بھی جوتا نہیں ہے۔‘‘

جرمن سائنس داں البرٹ آئن اسٹائن لکھتا ہے۔ ’’یہ بات کسی معجزے سے کم نہیں کہ جدید نظام تعلیم نے ابھی تک جوان ذہنوں کے مقدس تجسس اور تحقیق کے جذبے کا پوری طرح گلا نہیں گھونٹا۔ یہ سوچنا بہت ہی غضب ناک غلطی ہے کہ نظارے کے لطف اور تلاش کے شوق کو سخت قوانین، بھاری جرمانوں اور سزائوں کے ذریعے ترقی دی جا سکتی ہے۔ تعلیم تو حیرت اور تجسس کے خلا میں ایک مسلسل اور پرلطف شوقیہ پرواز کا نام ہے۔‘‘

’’مشکل یہ ہے کہ سیانے کافی سیانے نہیں اور احمق کافی احمق نہیں ورنہ علم کے پھیلنے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔‘‘

’’ہر کسی کو علم کی راہ پر چلنے دو صرف یہ خیال رکھو کہ وہ آگے بڑھ رہا ہے، اوپر جا رہا ہے، پیچھے یا نیچے کی طرف نہیں آ رہا۔‘‘

’’جن لوگوں کے پاس ایمان کے علاوہ کچھ نہیں ہے ان کے ایمان کو چھیڑنا بہت خطرناک ہوتا ہے۔‘‘

’’المیہ، لاعلمی نہیں ہے، لاعلمی سے سمجھوتہ ہے۔‘‘

’’علم کی منڈیریں جہالت کی چاردیواری سے بہرحال بلند ہیں۔‘‘

’’مذہبی رواداری کی تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص جس دروازے سے بھی جنت میں جانا چاہے اسے جانے دیں۔‘‘

’’جو شخص جاہل ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ وہ عالم ہے اس کا سیاسی مستقبل بہت درخشاں ہے۔‘‘

’’ہر انسان ایک کتاب ہے بشرط یہ کہ آپ کو اس کی زبان آتی ہو۔‘‘

’’علم حاصل کرنا ہے تو نظریات کے بجائے واقعات کا جائزہ لیں۔‘‘

’’انسان واحد جانور ہے جو روتا اور ہنستا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا چاہئے۔‘‘

اب آخر میں ایک احمقانہ سوال کا عارفانہ جواب سنئے۔

ایک احمق نے ایک عارف سے پوچھا۔

’’اگر تم جنگل میں جا رہے ہو اور تمہارے پاس کوئی اسلحہ وغیرہ بھی نہ ہو اور اچانک سامنے سے شیر آ جائے تو تم کیا کرو گے؟‘‘عارف نے جواب دیا۔’’میں نے کیا کرنا ہے، جو کچھ کرنا ہے شیر نے کرنا ہے۔‘‘

سو دوستو! ملک عزیز کے تعلیمی، ثقافتی، ادبی، سیاسی اور سماجی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب جو کچھ کرنا ہے وہ شیر نے کرنا ہے…

جو ہم ادھر سے گزرتے ہیں کون دیکھتا ہے

جو ہم ادھر سے نہ گزریں گے کون دیکھے گا

تازہ ترین