• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کا آزادی مارچ‘ جس کے محرکِ اوّل جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن تھے لیکن پھر مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی جیسی ملک کی اہم ترین سیاسی جماعتوں سمیت مجموعی طور پر نو سیاسی پارٹیاں اس ہنگامہ خیز سرگرمی میں شریک ہو گئیں، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے۔ اتوار کو کراچی سے روانہ ہونے والا کارواں سندھ سے گزر کر پنجاب میں داخل ہو چکا ہے۔ ہر علاقے سے سیاسی کارکن اس میں شامل ہوتے جا رہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام آباد میں داخلے کے وقت تک لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کا حصہ بن چکی ہو گی۔ اسلام آباد انتظامیہ اور جے یو آئی کی قیادت کے درمیان وفاقی حکومت کی رضامندی کے ساتھ ایک تحریری معاہدے کی صورت میں مارچ کے شرکاء کو دارالحکومت میں جلسے ہی نہیں دھرنے کی اجازت بھی دے کر آزادیٔ اظہار کے آئینی تقاضے کی تکمیل کی گئی ہے اور اب پوری قوم منتظر ہے کہ پروگرام کے مطابق جمعرات کے جلسے اور اس کے بعد حالات کیا رنگ اختیار کرتے ہیں۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت نے سوا سال میں اپنی غلط پالیسیوں سے ملک کی ترقی کرتی ہوئی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے، مہنگائی اور بےروزگاری نے عوام کی کمر توڑ کررکھ دی ہے، صنعت کا پہیہ جام ہوگیا ہے، نتائج و عواقب کا لحاظ کیے بغیر نافذ کی جانے والی پالیسیوں سے کاروباری حالات سخت ناسازگار ہو گئے ہیں جس کی بنا پر تاجر برادری سراپا احتجاج ہے، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر آئے دن نئی پابندیاں عائد کرکے آزادیٔ اظہار کا گلا گھونٹا جارہا ہے جو آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے منافی ہے۔ حکومت کے سیاسی مخالفین ہی نہیں ملک کے بہت سے باشعور شہریوں کے نزدیک کرپشن کے خاتمے کے نام پر بلاامتیاز اور غیرجانبدارانہ احتساب کے وعدے کی تکمیل کے بجائے اسے عملاً متبادل سیاسی قیادت تک محدود کردیا گیا ہے، جیلوں میں قید سیاسی رہنماؤں کو ان کے قانونی حقوق سے بھی محروم رکھا جارہا ہے جس سے لامحالہ انتقام کا تاثر ابھرتا ہے۔ حکومت کے خلاف اپنے اس مقدمے کی بنیاد پر اپوزیشن کا آزادی مارچ وزیراعظم کے استعفے اور نئے انتخابات کے انعقاد کے مطالبات کے ساتھ اسلام آباد پہنچ رہا ہے جبکہ عمران خان کا جوابی بیانیہ جس کا تفصیلی اظہار انہوں نے گزشتہ روز ننکانہ صاحب میں بابا گرونانک یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب میں کیا، یہ ہے کہ یہ آزادی مارچ ان کی حکومت کی ناکامی نہیں بلکہ کامیابی کے خلاف ہے، ان کے سیاسی مخالفین ان کی کامیابیوں سے پریشان ہیں نیز یہ کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے زیرِ احتساب رہنماؤں کو این آر او دلوانے یعنی ان کی جاں بخشی کرانے کی خاطر احتجاج کے ذریعے انہیں بلیک میل کرنا چاہتی ہیں تاہم اپوزیشن قیادت ہی نہیں متعدد سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار بھی پوچھ رہے ہیں کہ آخر وزیراعظم سے این آر او کون اور کیسے مانگ رہا ہے اور ایسے لوگوں کو وہ بےنقاب کیوں نہیں کرتے نیز یہ کہ جب معاملات عدالتوں میں ہیں تو آخر وہ زیرِ مقدمہ ملزموں کو این آراو دے کیسے سکتے ہیں۔ ان حالات میں تحریک انصاف کے بہت سے پُرجوش حامی بھی اس کے دفاع سے دست برداری اختیار کرتے محسوس ہو رہے ہیں۔ لہٰذا ہوشمندی کی راہ یہ ہے کہ اربابِ حکومت الزامی سیاست کے بجائے حالات کا ٹھنڈے دل و دماغ سے تجزیہ کرکے اپنی پالیسیوں کو بہتر بنائیں تاکہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرسکے جبکہ اپوزیشن کو بھی ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہئے جو ملک میں افراتفری کا سبب بن سکتے ہوں اور دونوں جانب سے پوری کوشش کی جانی چاہئے کہ اختلافات بات چیت سے طے کیے جائیں اور ملک کسی بحران کا شکار ہونے سے محفوظ رہے کہ یہی قومی مفاد کا تقاضا ہے۔

تازہ ترین