• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوں تو دہری شہریت کے حامل عام پاکستانی اور غیرملکوں میں روزگار کمانے والے پاکستانی ضیاء الحق کے دور سے لے کر زرداری دور تک ہر پاکستانی حکمران اور حکومتی کارندوں کی طرف سے زبانی تعریف اور عملی استحصال کا شکارچلے آرہے ہیں۔ ہر حکمراں اور سیاسی لیڈر انہیں غیرممالک میں ”پاکستان کے سفیر“ کہہ کر خوشخبری سناتے ہوئے مزید ذمہ داریوں کا اضافہ کرکے انہیں مراعات کا خالی وعدہ عطا کرتا رہا ہے جبکہ 12/ارب ڈالرز سالانہ زرمبادلہ سے پاکستانی حکمرانوں کی کرپشن اور عیاشیوں کی ضرورت بھی ان پاکستانیوں کی ترسیلات سے پوری کی جاتی ہے اور جب یہ پاکستانی اپنی کمائی سے پاکستان میں جائیداد خریدتے یا سرمایہ کاری کرتے ہیں تو ان پاکستانیوں کو قبضہ مافیا، کرپٹ حکام، کرائم مافیا کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا جاتا ہے نہ کوئی تحفظ اور نہ کوئی دادرسی ہوتی ہے بلکہ ایک بڑی تعداد مایوس اور مفلوک ہوکر پاکستان سے واپس آکر پھر کمانے اور اپنے لواحقین کی کفالت کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔ ابھی تک تو غیرممالک میں آباد یہ 80لاکھ پاکستانی صرف مالی استحصال کا شکارکرپٹ اور جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں سے ہوا کرتے تھے لیکن اب خدا بھلا کرے غیرممالک میں آباد ان مٹھی بھر خودغرض اور حریص پاکستانیوں کا جو دہری شہریت وغیرہ کی آڑ میں اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے لئے سرگرم ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کی اکثریت آج پاکستانی صورتحال پر پریشان ہے اور اپنی آبائی سرزمین سے تمام تر تلخیوں کے باوجود بے ساختہ محبت کرتے ہیں اور پاکستانی نظام کی خامیوں کو دور کرنے کے لئے نشاندہی اور حل بتانے کا ماہرانہ کام کرتے رہتے ہیں۔ اس کی ایک عمدہ مثال امریکی شہر بوسٹن کے قریب رہائش پذیر ڈاکٹر محمود اعوان کی ہے جو امریکی یونیورسٹیوں میں سالہا سال تک بزنس مینجمنٹ پڑھا چکے ہیں اور اسلامی بینکنگ میں مختلف مسلم حکومتوں کے مشیر بھی ہیں اور ڈاکٹر طاہر القادری کے ایام نوجوانی سے لے کر نواز شریف فیملی سے قربت سمیت اور بعدازاں کے نشیب و فراز اور حقائق سے بخوبی واقف ہیں اور طاہر القادری کے حالیہ مشن برائے پاکستان کے بارے میں بھی مختلف کوائف، کرداروں اور اہداف کے بارے میں بھی اپنی رائے اور معلومات رکھتے ہیں مگر آبائی سرزمین پاکستان سے لگاؤ رکھنے والے ڈاکٹر محمود اعوان لاہور، اسلام آباد موٹروے (ایم۔2) کی طرح کراچی انٹرنیشنل ائیرپورٹ کو بھی سکوک بانڈز کے ذریعے مارگیج میں رکھنے کے معاشی فیصلے پر انتہائی ناخوش اور پاکستانی معیشت کی تباہی کا اقدام قراردے رہے ہیں حالانکہ اس دہری شہریت والے پاکستانی ماہر کا کوئی سیاسی یا معاشی مفاد کراچی ائیرپورٹ سے وابستہ نہیں ہے۔ موٹروے اور ائیرپورٹ جیسے قومی اثاثوں کو سکوک کے ذریعے رہن رکھ کر حاصل ہونے والی آمدنی کو پہلے سے بجٹ میں موجودہ خسارہ و اخراجات کی ادائیگی کے اقدام کو انہوں نے نہ صرف خلاف شریعت اقدام قرار دیتے ہوئے ماہر شریعت مفتی تقی عثمانی سے بھی اس بارے میں رائے دینے اور وزارت خزانہ کو اس اقدام سے روکنے کی کوشش کے لئے اپیل کی ہے بلکہ عام پاکستانی کی نظروں سے اوجھل معیشت، اعداد اور کرپشن کے فنی طریقوں سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ پانچ سال میں اپنے غلط فیصلوں، عوام سے حقائق چھپانے اور کرپشن کے ذریعے ملکی معیشت کوکس طرح لوٹا بھی ہے اور تباہ بھی کیا ہے بلکہ اب موٹروے اور کراچی ائیرپورٹ کو سکوک کے ذریعے مارگیج کی آڑ میں بجٹ میں خسارے کی سرنگ بھرنے اور مزید کرپشن کی دولت اکٹھی کرنے کے ٹیکنیکل اور شریعت کے نام پر قومی معیشت کی مزید تباہی کے ٹیکنیکل کھیل سے پردہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے یہ سب ماہرانہ رائے صرف آبائی سرزمین پاکستان کے اجتماعی مفاد کے درد کے تحت دی ہے حالانکہ نہ وہ پاکستان کے مشیر ہیں نہ کوئی عہدیدار نہ کنسلٹنٹ ہیں لہٰذا دہری شہریت کے حامل عام پاکستانی اب بھی آبائی سرزمین پاکستان سے لگاؤ رکھتے ہیں، اس کے مستقبل کے بارے میں پریشان بھی رہتے ہیں۔ ہاں چند مٹھی بھر ایسے عناصر بھی ہیں جو اپنی دہری شہریت کو پاکستان میں اپنے رشتہ داروں ،کرپٹ سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور جنرلوں کی کرپشن کی دولت کو غیرممالک میں ٹھکانے لگانے، اپنے ہاتھ رنگنے اور اعلیٰ عہدوں کے حصول کے لئے استعمال میں لاتے ہیں لیکن ان کی تعداد کسی بھی پُرامن معاشرے میں جرائم پیشہ افراد کی طرح انتہائی تھوڑی ہے۔دہری شہریت والے پاکستانیوں کی اکثریت ہم سب کے لئے قابل فخر ہے۔ ڈاکٹر محمود اعوان کا کہنا ہے کہ آنے والی نگراں حکومت کو جو معیشت ورثے میں ملے گی اس معیشت کو چلانا انتہائی مشکل بلکہ ناممکن ہوگا۔ ادھر اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر محمد یعقوب نے ”دی نیوز“ میں گزشتہ روز موجودہ حکومت کے بجٹ کے ہیرپھیر اور کھیل کے بارے میں ”بجٹ کے کور اپ“ اعداد وشمار کے دھوکے جس عام فہم زبان میں بے نقاب کئے ہیں وہ بھی قارئین کے لئے توجہ کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر یعقوب کا یہ مضمون دعوت فکر و بحث دیتا ہے۔ خدا بے لوث پاکستانیوں کوحقیقت بیان کرنے کا جذبہ مزید دے۔ پاکستانی معیشت کی موجودہ تباہی ایسے وقت اور دور میں ہوئی کہ جب پاکستان کے وزیر خزانہ بھی اپنی تمام مہارت کے ساتھ امریکہ سے پاکستانی معیشت درست کرنے کے لئے اسلام آباد گئے۔ اسی طرح پلاننگ کمیشن کی باگ ڈور بھی واشنگٹن کے رہائشی ڈاکٹر ندیم الحق کے ہاتھ میں ہے اب یہ دونوں حضرات اپنا مشن مکمل کرچکے عہدے اور مراعات کے مزے لوٹ چکے، انہیں اب واپس لوٹا دیا جائے تو ان کے اور ان کے اہل خانہ کے لئے بھی اچھا ہوگا یہ دونوں بھی دہری شہریت کے حامل وہ پاکستانی ہیں جو آبائی وطن میں اعلیٰ عہدوں کیلئے گئے تھے اور اس حکومت کی میعاد پورے ہونے پر اپنے اثاثوں سمیت لوٹ آئیں گے۔ رہی بات دہری شہریت والے علامہ طاہر القادری کی، تو ابھی صدر آصف زرداری کو ان کے تعاون کی ضرورت ہے لہٰذا وہ کچھ عرصہ مزید قیام کرلیں ٹورنٹو واپسی پر انہیں کینیڈین قوانین کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔
تازہ ترین