• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے تذکرہ جنگ کی یادداشتوں میں اپنی اولین یادداشت امتیاز علی راشد مرحوم کا کہ جنہوں نے مجھے جنگ کی سیڑھیاں چڑھنا سکھایا، جو مجھ پر بس ایک قرض ہی رہا کہ دعائے مغفرت کے علاوہ انسان کے بس میں اب کیا ہے۔ صرف زبانی کلامی نہیں... حقیقت میں حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

مولانا حسرت موہانی تحریک آزادی کے نامور رہنما تھے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد انہوں نے اردو معلی کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا اور انگریز حکومت پر تنقید کے نشتر چلانا شروع کر دیئے۔ ذرائع ابلاغ پر پابندیاں وہیں پر نافذ کی جاتی ہیں جہاں پر عوام کو اندھا، بہرہ، گونگا رکھنا مقصود ہو تاکہ جو چاہے گل کھلائے جا سکیں۔ لہٰذا جب مولانا حسرت موہانی نے عوام کی زبان، آنکھیں اور کان بننے کا فریضہ سر انجام دینا شروع کر دیا تو اس وقت کے حکمرانوں کو یہ گوارہ کیسے ہو سکتا تھا لہٰذا ایک مضمون کی پاداش میں 2جون 1908کو مقدمہ بغاوت قائم کر دیا گیا۔ مضمون علی گڑھ کالج کا تحریر کردہ تھا مگر مولانا موہانی نے اس کا نام تک نہ لیا اور ساری ذمہ داری خود قبول کر لی۔ مولانا کو دو سال قید بامشقت کی سزا ہوئی جو بعد میں ہائی کورٹ نے ایک برس کی کر دی۔ ایک سال بعد جب قید سے رہا ہوئے تو ان کے دوستوں نے ان کو سیاست سے علیحدگی یا نرم رویے کا مشورہ دیا جس کے جواب میں نومبر 1909کے اردو معلی کے شمارے میں مولانا نے تحریر کیا کہ ’’مشکل یہ ہے کہ ہمارے خیال میں یقین یا عقیدہ عام اس کے کہ وہ مذہبی ہو یا سیاسی ایک ایسی چیز ہے کہ جس کو محض کسی خوف یا مصلحت کے خیال سے ترک یا تبدیل کرنا اخلاقی گناہوں میں سے ایک بدترین گناہ ہے۔ جس کے ارتکاب کا کسی حریت پسند یا آزاد خیال اخبار نویس کے دل میں ارادہ بھی پیدا نہیں ہو سکتا‘‘۔

مولانا محمد علی جوہر ؒ اور اُن کے رفقاء کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا اور یکم نومبر 1921کو سب کو دو، دو سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ صرف سوامی شنکر اچاریہ کو مقدمہ سے بری کر دیا گیا۔ تضحیک کرنے کی غرض سے ان سب کو جیل کا لباس پہنایا گیا۔ اسی لباس میں مولانا محمد علی جوہر کی ملاقات ان کی والدہ بی اماں اور صاحبزادیوں سے بھی کروائی گئی۔ ذہنی تشدد کا حربہ اپنے عروج پر تھا۔ ان حالات کے باوجود مولانا محمد علی کی رہائی کے بعد ان کی شخصیت کا احاطہ کرتے ہوئے مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے تحریر کیا کہ ’’مولانا محمد علی جیل سے نکلے تو کندن بن کر نکلے‘‘ انگریز دور تک تو یہ ممکن تھا کہ سیاسی لیڈروں یا اخبار نویسوں کو بغاوت کے الزامات کا سامنا کرنا پڑے مگر جب آزادی نصیب ہو گئی تو بغاوت کے لفظ سے عوام کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا تھا لہٰذا جب ایوبی آمریت کو مادرِ ملت نے للکارا تو قائداعظم کی بہن پر بھارتی ایجنٹ ہونے تک کا الزام لگایا گیا۔

سابقہ مشرقی پاکستان میں حسین شہید سہروردی ایک طاقتور توانا آواز تھی۔ ایوب خان نے ان کو ایبڈو کے ذریعے سیاست سے نااہل قرار دے دیا جب اس پر بھی گزارا نہ ہوا تو ان کو جیل میں ڈال دیا گیا مگر اسی دوران نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ (این ڈی ایف)کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ نوابزادہ نصراللہ، سہروردی کی جماعت عوامی لیگ کے مغربی پاکستان میں سرگرم رہنما تھے۔ انہوں نے 1962کے ایوبی آئین کے خلاف فضا قائم کرنے کے لئے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا۔ سہروردی جیل سے چھوٹے تو این ڈی ایف کی میٹنگ کے لئے کراچی آئے جہاں اس سے قبل انہیں دل کا دورہ پڑا۔ جناح اسپتال میں داخل ہو گئے۔ ایوب خان نے ایبڈو زدہ سیاستدانوں کے خطاب اور بیانات پر پابندی کا آرڈیننس جاری کر دیا۔ سہروردی نے اسپتال سے بیان دیا کہ ایوب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ابھی اس ملک میں ایسے باہمت افراد ہیں جو اپنے ضمیر کی آواز بلند کرنے کے لئے ایسی پابندیوں کو کبھی خاطر میں نہیں لائیں گے۔ اس بیان کے بعد ایوب کھوڑو، نوابزادہ نصراللہ اور کرنل عابد حسین اسپتال میں ان سے ملے۔ کھوڑو نے سہروردی کو کہا کہ ہمیں آپ کی صحت بےحد عزیز ہے۔ آپ کم از کم اس حالت میں تو ایسے بیانات نہ دیں۔ ہو سکتا ہے یہیں سے اسٹریچر پر ڈال کر آپ کو جیل پہنچا دیا جائے۔ سہروردی نے جواب دیا اس آمرانہ ماحول میں باہر رہنے کے بجائے میں جیل میں مرنا پسند کروں گا۔ ہم انگریز دور سے لیکر آزادی کے بعد تک کے عوامی رہنمائوں سے نپٹنے کے طریقے میں ایک یک رنگی دیکھتے ہیں کہ جو عوامی پذیرائی والا رہنما عوام کی بات کرتا ہے تو اس پر ملک دشمنی کا الزام لگایا گیا، گویا پاکستان کے تمام مسائل کی وجہ یہی سیاستدان ہیں۔ نوازشریف کے معاملے میں پاکستانی پریس حمایت یا مخالفت کے جذبات رکھ سکتا ہے اس لئے اس کو ایک طرف رکھتے ہوئے عالمی پریس کی ایک رپورٹ بھی ان کی وزارت عظمیٰ سے معزولی سے لیکر جیل سے گرفتاری تک کی انوکھی واردات میں یہ تحریر کرتی نہیں ملے گی کہ یہ سب مروجّہ قانون کے مطابق ہوا بلکہ صراحتاً کہا گیا کہ ان کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بات صرف نواز شریف کی ہی نہیں شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، کیپٹن صفدر، شاہد خاقان عباسی، خواجہ برادران، رانا ثناء اللہ، آصف زرداری، ان سب مقدمات پر عالمی پریس کی خبریں اور تجزیے پڑھ لیں، ان مقدمات پر اسی پولیٹکل انجینئرنگ کا تذکرہ نظر آئے گا جس کا ذکر منصفِ اعلیٰ نے بھی کیا کہ یہ تاثر ختم ہونا چاہئے۔ حسرت موہانی سے لیکر ان تمام افراد تک آپ کو ایک ہی کہانی اور ایک ہی قسم کے کردار نظر آئیں گے۔ ایک رائے عامہ کے نمائندے اور دوسرے اُن کو مٹانے والے۔ جیل کا لباس پہنانے سے جیل میں لگے ایئر کنڈیشنر اتارنے تک ایک ہی طرح کے الزامات ایک ہی طرح کی کہانیاں اور پھر کچھ درباری جو جب چاہے وعدہ معاف گواہ بنتے اپنے آپ کو کوستے نظر آتے ہیں اور جب چاہے سب سے بڑے انقلابی۔ لیکن تاریخ انہیں بھی بےنقاب کر ڈالے گی کیونکہ مقابلے میں کھڑے ہونے والے اب گوانتا ناموبے یا کالا پانی بھی جھیلنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔

تازہ ترین