• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترک عسکری قیادت جو نجم الدین ایربکان اور ان کی جماعت رفاہ پارٹی کو سیکولر ازم کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ تصور کرتی تھی کو منظر ِ عام سے ہٹانے کیلئے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا شروع کردیا تھا۔ فوج نے وزیراعظم ہاؤس میں مختلف مذہبی جماعتوں اور مختلف طریقت کے سربراہان کے اعزاز میں وزیراعظم نجم الدین ایربکان کی جانب سے دی جانے والی افطار پارٹی پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا اور اسے سیکولرازم پر کاری ضرب قرار دیا تھا۔ فوج نے ایربکان حکومت کو بدنام کرنے کیلئے بری فوج اور جنڈا مری کی نگرانی میں قائم JITEM (ڑتیم، جنڈا مری خفیہ سروس اور دہشت گردی سے نبرد آزما ادارہ) نام کے ادارے کو اپنے مقاصدکے لئے استعمال کرنا شروع کردیا۔ ڑتیم جو پہلے ہی ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں دہشت گردی کی روک تھام کی آڑ میں بڑے پیمانے پر قتل عام اور عام انسانوں کو اغوا کے واقعات میں ملوث ہونے کی بنا پر بدنام ہوچکی تھی ( جیسے موجودہ دور میں پاکستان میں اغوا کے واقعات میں آئی ایس آئی کا نام لیا جا رہا ہے) نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور ایک علما ء یا پھر مذہبی شخصیات کے خلاف ایسا ڈرامہ رچایا جو کئی دن تک مختلف ٹی وی چینلز پر خبروں کی زینت بنتا رہا۔ ڑتیم نام کے اس ادارے جس کے اراکین کی تعداد دس ہزار بتائی جاتی ہے میں سے چند ایک کو مذہبی شخصیات کا روپ دیتے ہوئے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا۔ انہی بہروپی مذہبی شخصیات میں سے ایک نے طریقت کے شیخ اور دوسری بہروپی شخصیت نے نوجوان دوشیزہ کا کردار ادا کیا اور ان کے ملاپ سے سیکس اسکینڈل نے جنم لیا۔ اس سیکس اسکینڈل نے ترکی کو ہلا کر رکھ دیا اورکئی روز تک اس سیکس اسکینڈل کو عبرت کے طور پر ٹی وی پر پیش کیا جاتا رہا جو عوام میں رفاہ پارٹی کے خلاف نفرت پیدا کرنے کا وسیلہ بنتا رہا۔کئی سال بعد ان بہروپی شخصیات نے اس ڈرامے کو فوج کی جانب سے رچائے جانے کا اعتراف کر لیا تھا۔ فوج جو ایربکان حکومت کو ختم کرنے کا تہیہ کرچکی تھی نے انقرہ کے مضافات میں رفاہ پارٹی کے زیر اہتمام یوم القدس کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریب جس میں ترکی میں اسلامی انقلاب برپا کرنے اور فلسطین کو آزاد کرانے کی نعرے بازی کو موقع جان کر اس جماعت کا قلع قمع کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ فوج نے اس دوران اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے کیلئے انقرہ کی شاہراہوں پر ٹینک اور بکتر بند چلا دیئے تاکہ عوام کو خوفزدہ کیا جا سکے۔ 28فروری کو فوج نے قومی سلامتی کونسل کے نو گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس کے بعد اس وقت کے صدر سلیمان دیمرل کو ایک وارننگ میمورنڈم جسے پوسٹ ماڈرن مارشل لا کا نام بھی دیا جاتا ہے کو جاری کرتے ہوئے ایربکان، تانسو چیلر مخلوط حکومت ختم کرنے کے احکامات صادر کرنے کو کہا گیا۔ اس پوسٹ ماڈرن مارشل لا کے ذریعے پارلیمینٹ کو اگرچہ کالعدم کو قرار نہیں دیا گیا لیکن پارلیمینٹ ہی سے نئی حکومت قائم کرنے کے احکامات جاری کئے گئے۔ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں کئے جانے والے تمام فیصلوں پر وزیراعظم ایربکان نے دستخط کرنے سے انکار کردیا جس پر 18 جون 1997ء میں فوج نے پارلیمینٹ کے اندر اراکینِ پارلیمینٹ کا نیا گٹھ جوڑ کرتے ہوئے ایربکان کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔ صدر سلیمان دیمرل نے فوج کے احکامات کی روشنی میں حکومت تشکیل دینے کے فرائض پارلیمینٹ میں اقلیتی پارٹی مدر لینڈ پارٹی کے چیئرمین مسعود یلماز کو سونپ دیئے اور فوج ہی کے دباؤ میں آئینی عدالت نے نجم الدین ایربکان سمیت پانچ رہنماؤں کو سیکولرازم کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے سیاست میں پانچ سال کے عرصے کیلئے پابندی لگانے اور رفاہ پارٹی کو کالعدم قرار دینے کے فیصلہ سنادیا۔ ایربکان ہی کے قریبی ساتھیوں میں سے عبداللہ گل اور رجب طائیپ ایردوان پر مشتمل ایک گروپ نے چودہ اگست 2001 ء میں جسٹس اینڈ ڈولپمینٹ پارٹی کے نام سے ایک الگ جماعت قائم کرلی جبکہ رفاہ پارٹی کے ایک دوسرے گروپ نے سعادت پارٹی کے نام سے اپنے سفر کو جاری رکھا۔رجب طائیپ ایردوان اور ان کے ساتھیوں نے 3نومبر2002ء کو ہونے والے عام انتخابات سے پندرہ ماہ قبل بھرپور طریقے سے ملک بھر میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔ سیاسی سرگرمیوں کے دائرہ کار میں ایردوان نے جنوب مشرقی اناطولیہ کے شہر سیرت میں اپنے مشہور اشعار عوام کو سنائے جس پر انہیں آٹھ ماہ قید کی سزا دے دی گئی اور ان کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے تمام امکانات ختم ہوکر رہ گئے۔
تین نومبر2002ء کو جسٹس اینڈ ڈولپمینٹ پارٹی نے اپنے بانی ایردوان کے بغیر انتخاب لڑا اور34 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے پارلیمینٹ میں کلی اکثریت حاصل کرلی تھی جس پر پارٹی کی نمبر دو شخصیت عبداللہ گل کی قیادت میں حکومت تشکیل دے دی گئی بعد میں حزبِ اختلاف کی ری پبلیکن پیپلز پارٹی نے آق کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور آئین میں ترمیم کرانے میں مددگار ہوتے ہوئے ایردوان کے لئے پہلے پارلیمینٹ کا رکن بننے اور پھر وزیراعظم بننے کی راہ کو ہموار کردیا۔ ایردوان جو سیرت کے علاقے میں اشعار پڑھنے کی وجہ سے پابند سلاسل بنا دیئے گئے تھے اب سیرت ہی سے 84 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے رکن پارلیمینٹ منتخب ہوئے اور 15 مارچ 2003ء میں ملک کے نئے وزیراعظم منتخب کر لئے گئے۔ جسٹس اینڈ ڈولپمینٹ پارٹی اگرچہ ظاہری طور پر ترکی میں اپنی حکومت قائم کرچکی تھی لیکن اسٹیبلشمنٹ نے ان کی حکومت کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور ملک کے کسی بھی ادارے میں نئی حکومت کو اپنے پسند کے بیوروکریٹس متعین کرنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی اس سلسلے میں فوج اور اس وقت کے صدر احمد نجدت سیزر نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ مذہب پسندوں یا پھر ہیڈ اسکارف پہننے والی خواتین کے شوہروں کے بیورو کریٹس مقررکرنے کے خوف سے صدر نے تعیناتی کے قرار ناموں ہی کو ویٹو کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تھا حالانکہ ان میں ایسے بیوروکریٹس بھی شامل تھے جو جدید خیالات کے حامل تھے اسی طرح کی ایک شخصیت مہمت شمشیک بھی تھے جن کا نام اسٹیٹ بینک کے نئے گورنر کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ مہمت شمشیک نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی تھی اور ان کی اہلیہ بھی ایک انگریز خاتون تھیں لیکن صدر نے ان کے نام کو ان کی اہلیہ کے ہیڈ اسکارف پہننے کی غلط اطلاع پر ویٹو کردیا تھا اور مہمت شمشیک ناکردہ گناہوں کی پاداش میں اسٹیٹ بینک کے گورنر بننے سے محروم رہ گئے تھے۔ (بعد صدر نجدت سیزر کی مدت پوری ہونے پر اور عبداللہ گل کے صدر منتخب ہونے پر مہمت شمشیک کو وزارتِ خزانہ کا قلمدان سونپ دیا گیا) احمد نجدت سیزر کی میعاد پوری ہونے پر ملک میں نئے صدر کے انتخاب سے متعلق نئے سرے سے ریشہ دوانیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فوج کسی بھی صورت کسی ایسے شخص کو صدر منتخب کرنے کے حق میں نہیں تھی جس کی بیگم ہیڈاسکارف پہنتی ہو لیکن آق پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں میں ایسا کوئی شخص موجود نہ تھا جس کی اہلیہ ہیڈ اسکارف نہ پہنتی ہو۔ پارلیمینٹ میں صدر منتخب کرنے کی اکثریت رکھنے کے باوجود آق پارٹی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جانے لگیں۔ حزب اختلاف کی جماعت ری پبلیکن پیپلز پارٹی جو سیکولرازم کی داعی تھی نے فوج کو اکسانا شروع کر دیا۔ اس موقع پر فوج نے آئینی عدالت کا سہارا لیتے ہوئے ایک ایسا شوشا چھوڑا جس کی ترکی کی پارلیمینٹ کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ پارلیمینٹ میں صدارتی انتخابات سے ایک روز قبل چیف آف جنرل اسٹاف کے دفتر سے آق پارٹی کے سوا تمام اراکین کو ٹیلی فون کرتے ہوئے اگلے روز پارلیمینٹ جانے سے روک دیا گیا تاکہ پارلیمینٹ کی 550 نشستوں میں367/اراکین کی پارلیمینٹ میں موجودگی کو روکا جا سکے اور پھر 367/اراکین کے موجود نہ ہونے کو جواز بنا کر صدارتی انتخابات کو غیر قانونی قرار دیا جاسکے اور اس طرح نہ ہوگا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ فوج اور ری پبلیکن پیپلز پارٹی کے گٹھ جوڑ کی قلعی کھل چکی تھی۔ آق پارٹی نے صدارتی انتخابات کی بجائے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے سب کو ورطہِ حیرت میں ڈال دیا۔ (جاری ہے)
تازہ ترین