• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج اپنے دوست جنرل شاہد عزیز کی بارُودی کتاب کی تعارفی تقریب سے لوٹا تو سوچا کہ ان کے اس ادبی خودکُش حملے کی رُوداد قلم بند کروں۔ لکھنے بیٹھا ہی تھا کہ کوئٹہ میں دہشت گردی کی لرزہ خیز خبر سے اٹھ بیٹھا۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق ہزارہ نسل اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے 84 افراد شہید کر دیے گئے اور تقریباً اس سے دوگنے افراد شدید زخمی ہونے کے باعث زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور ان کے لواحقین لاشوں کے ساتھ دوسری مرتبہ دھرنا دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ایک ماہ قبل علمدار روڈ پر اس قبیلے کے ساتھ اسی طرح کی قیامت ڈھائی گئی تھی- ہمارے حکمرانوں کے ردِ عمل میں فرق صرف یہ ہے کہ پہلی بار جناب چیف منسٹر صاحب گمشدہ تھے اگرحاضر بھی ہوتے تو سوائے چٹکلے چھوڑنے کے کر بھی کیا پاتے؟ البتہ اس دفعہ گورنر راج کے راجہ بڑی پھرتی سے ہسپتال پہنچے اور میڈیا کے سامنے اپنی بے بسی اور ندامت کا بر ملا اظہارکیا۔ بے شک یہ سانحہ کھلی بر بریت ہے لیکن افسوس اس بات کا ہوا کہ ہمارے قائدین محض مزاحمتی بیانات سے آگے نہ جاسکے ۔ شاید ہی کوئی سیاسی قائد ہوگا جس کا ٹیلی وژن پر مذّمتی بیان نہ آیا ہو۔ صدرِمملکت نے تو گورنر کو اپنی ذاتی نگرانی میں امدادی کاروائیاں کرنے کا حکم دے ڈالااو ر فرمانبردار گورنر نے اپنی حکومت کی تمام مشینری کو بروئے کار لانے کے احکامات صادر فرمادئیے۔ چیف سیکرٹری نے ٹیلی وژن پر نمودار ہو کر یہ کہا کہ لوگ قتل کر رہے ہیں اور پکڑے بھی جا رہے ہیں مگر وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ دہشت گرد پانی والی ٹینکی میں پانی کی جگہ 800 کلو گرام بارودڈال کر دھماکا کر سکتے ہیں۔ ان کے اس بیان سے ہمارے علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ تخریب کاروں کی پذیرائی بھی ہوئی۔ یعنی ہر ایک نے ایک دوسرے کو نوٹس پہ نوٹس دیے اور لواحقین کو یقین دلایا کہ تخریب کاروں کو پہلے کی طرح جلد از جلد کیفرِ کردار تک پہنچایا جائیگا۔ وزیرِاعظم نے قومی اسمبلی میں بڑی درد مندی سے تخریب کاروں کو جہنم رسید کرنے کا اعلان کیا۔ یہ ایک انتہائی خوش آئند اقدام ہے لیکن اصل مسئلہ ان نوٹسوں، ہدایات، اعلانات اور مذّمتی بیانات کو عملی جامہ پہنانے کا ہے جس کا مکمل فقدان نظر آتا ہیے جس کی وجہ اکثریت کو تمام مسائل کا حل فوج کے استعمال ہی میں نظر آتا ہے۔ اگر واقعی فوج مسائل کا حل ہے تو اس کو بلانے کی ذمہ داری کس کی ہے ؟ البتہ بلانے والوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ بلاوے کا بھی ایک مناسب وقت ہوتا ہے! ورنہ شائد یہ عمل بھی بے سُود ثابت ہو۔ آج کل کی بے بسی اور بے حِسی در حقیقت قومی مفاہمتی آرڈیننس کاشاخسانہ ہے جس کی وجہ سے گذشتہ پانچ سال میں ہم حکمت کی بجائے مفاہمت کا سہارا لیتے رہے اور آج مفاہمت سے بہت آگے نکل کر ندامت سے دوچار ہیں۔قارئینِ کرام! ہم قادری صاحب سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن ان کا یہ نعرہ ”سیاست نہیں ریا ست بچاؤ “ ہی موجودہ حالات کا تقاضا ہے۔ اس نعرے کی مخالفت میں دی جانے والی دلیل کہ سیاست سے ہی ریاست بچے گی ، بالکل کھوکھلی اور بے جا نظر آتی ہے کیونکہ موجودہ طرزِ سیاست مفاد پرستی اور سازشی بنیادوں پر ہی چلائی جا رہی ہے جو ریاست کی بنیادوں کو ہی کھوکھلا کرنے کے در پَے ہے۔ میری ناقص رائے میں ہم پہلے ہی بہت دیر کر چکے ہیں اور ہمارے ڈوبنے میں کم ہی وقت بچا ہے۔ اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تمام کام چھوڑ کر یکسوئی سے قومی سلامتی کا ایک متفقہ لائحہء عمل تر تیب دیں اور اس پر عمل دَرآمد کرنے کے لئے تمام متعلقہ اداروں بشمول فوج اور ایجنسیوں کو واضح اہداف دیں اور پھر ان کو روزانہ کی بنیادوں پرکامیابی یا ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرائیں اور اس سارے عمل کو جنگی بنیادوں پرپایہء تکمیل تک پہنچائیں۔ ایک عرض کرتا چلوں کہ خدارا ایسی حکمتِ عملی تشکیل نہ دیں جو جذباتی انداز سے سمندر میں کُود جانے کے مترادف ہو۔ اس ضمن میں تمام محاذوں پر بیک وقت ہَلّا بولنے کی بجائے فرقہ واریت کے ناسور کا قلع قمع کریں کیونکہ اس کا پر چار کرنے والے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں بلکہ خود با آوازِ بلند کہہ رہے ہیں کہ ہاں ہم ہیں، کر لو جو ہمارا کرنا ہے! لہٰذا ان کو صرف کالعدم قرار دینے یا کسی کا دوست یا دشمن قرار دینے سے با لکل کام نہیں چلے گا۔ ہم زندوں کی تو روزانہ بے حرمتی کرتے چلے جا رہے ہیں مگر لاشوں کی بے حرمتی ہم سے دیکھی نہیں جاتی! آخر میں سیّد ضمیر جَعفری کی بھلے وقتوں میں کہی ہوئی نظم کا ایک حصّہ پیشِ خدمت ہے۔
لہو کا نرخ
پھر اِک اُلجھن شعلہ بن کر لپکی شہر جلانے کو
پھراِک صر صرِ غم لے آئی بستی میں ویرانے کو
کھول دیے خود اپنے جبڑے اپنا گوشت چبانے کو
کیا ہم کو یہ ہاتھ ملے تھے اپنی لاش اُٹھانے کو
اپنے چاند”غروبے“ہم نے، اپنے پھول اُجاڑیں ہم
اپنے ہاتھوں اپنے جسم کو،پُرزے پُرزے پھاڑیں ہم
اپنے لہو کی پیاس اٹھی ہے، اپنا نرخ چکانے کو
کیا ہم کو یہ ہاتھ ملے تھے اپنی لاش اُٹھانے کو
تازہ ترین