• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیاوی موضوعات پر لکھنے سے اکتاہٹ محسوس ہو تو قلم کا رُخ باطن کی طرف موڑ دو۔ خود بخود کچھ باتیں قلم کی نوک سے نکلنا شروع ہو جائیں گی۔ سمجھنے کی بات فقط اتنی سی ہے کہ یہ دنیا عقل، سائنس اور مادیت کی دنیا ہے جبکہ روحانیت خالصتاً عشق کی دنیا ہے۔ بقول مرشدی اقبال عشق آتشِ نمرود میں بےخطر کود جاتا ہے جبکہ عقل محوِ تماشائے لبِ بام رہتی ہے۔ وجہ عشقِ تیقن ہے، اندھا یقین ہے، اپنے آپ کو اپنے مالکِ حقیقی کے مکمل طور پر سپرد کر دینے کا نام ہے، عشقِ الٰہی ہے اور عشقِ رسول ؐہے جبکہ عقل ڈرپوک ہے، ہر بات کا حساب کتاب کرتی ہے، سائنسی اصولوں پر پرکھتی ہے اس لئے عقل کبھی بھی آتشِ نمرود میں کودنے کا سوچ نہیں سکتی۔ محض عقل اور سائنس کی تابع فرمانی کے ساتھ عشق کو نہیں سمجھا جا سکتا لیکن عشق وہ منزل ہے جہاں عقل، مادیت، سائنس بلکہ دنیا کی ہر شے ہیچ اور تابع فرمان بن جاتی ہے۔ سچ پوچھو تو میں نے عشق کی حکمرانی اور عقل کی تابع فرمانی کے ایسے ایسے واقعات دیکھے ہیں جن کی سائنس توضیح کر سکتی ہے نہ عقلمندوں کو اُن کی سمجھ آ سکتی ہے۔ عقلمند روحانیت کا تمسخر اڑانے کے لئے بھنگ پی کر بےہوش پڑے نشئیوں کو ’’بابے‘‘ کہتے ہیں جبکہ میں نے انتہائی غریبانہ ماحول میں بیٹھے عاشقوں کو حکمرانی کرتے دیکھا ہے۔ حکمرانی یہی ہوتی ہے نا کہ انسان کے منہ سے نکلی ہوئی بات من و عن صحیح ثابت ہو، اُن کی اشارے کنایئے میں بیان کردہ صورت ایک حقیقت بن کر آنکھوں کے سامنے آ جائے۔ عشق کی دنیا میں قدم رکھنے سے لے کر تربیت کی منازل طے کرنے تک مرشد کامل کی ضرورت ہوتی ہے۔ مرشد کامل ہمہ وقت مرید پہ نگاہ رکھتا ہے اور سوتے جاگتے تمام احوال سے واقف ہوتا ہے۔ مرشد کی تلاش کیلئے دل میں عشق کی چنگاری، اخلاص، جستجو اور استقامت ناگزیر ہے۔ یہ برسوں کا سفر ہوتا ہے۔ جو عقلمند چند کوس چلنے کے بعد تھک جاتے ہیں یا مایوس ہو جاتے ہیں وہ ہمیشہ محروم رہتے ہیں کیونکہ اس سفر کا پہلا پڑائو ہی آزمائش ہوتا ہے۔ آزمائش عشق کی، لگن کی اور استقامت کی۔ رزقِ حلال، حرص و ہوس سے آزادی اور باطن کا سفلی جذبات سے پاک ہونا تزکیہ نفس اور عشق کی پہلی سیڑھی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ راشی ہوں، متکبر ہوں، ناصب ہوں، جھوٹ بولیں، کم تولیں، حرص و ہوس کے مریض ہوں اور پھر سچے عشق کی تمنا بھی کریں۔ ہیرے گندگی اور غلاظت کے ڈھیر سے نہیں ملتے، انہیں پانے کے لئے سمندر کی تہہ میں اترنا پڑتا ہے اور مرشد کی نگاہ کے بغیر انسان سمندر کے پانی پر پائوں نہیں رکھ سکتا۔ مرشد کامل زمین پر بیٹھے مرید کو آسمانوں کی سیر کراتا اور ایسے ایسے مقامات کی زیارت کراتا ہے جو انسانی تصور سے بالاتر ہیں۔ عقل اس اڑان کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہے اس لئے اِسے واہمہ، فریب اور (Hallucination)قرار دیتی ہے۔ مختصر یہ کہ عقل ہر شے کو سائنس کے پیمانے پر ناپتی اور پرکھتی ہے جبکہ روحانیت کی دنیا میں سائنس عشق کے تابع ہوتی ہے یہ قربِ الٰہی کا انعام ہوتا ہے۔ سائنس کے زور پر خلا نوردی کرنے والوں اور چاند پہ قدم رکھنے والوں کو خدا نہیں ملتا لیکن میلے کچیلے کپڑے پہنے خاک پہ بیٹھے ہوئے عاشقوں کو مِل جاتا ہے۔

مرشد کامل ہو تو اُس کا فیض اُس کی وفات کے بعد بھی جاری و ساری رہتا ہے۔ مرشد کامل اپنی وفات کے بعد بھی اپنے سچے مریدوں کو مختلف انداز سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ محترم و مکرم سرفراز شاہ صاحب روحانی شخصیت ہیں، مرشد کامل سے فیض یافتہ ہیں اور دنیا کی ہر قسم کی حرص و غرض سے پاک ہیں۔ گزشتہ آٹھ دس برس کے دوران میری اُن سے ملاقاتیں محض چند ایک ہیں۔ غالباً پانچ چھ سال قبل ایک روز اُن کے اسسٹنٹ صابر ملک کا فون آیا کہ آج شام قبلہ شاہ صاحب آپ کے گھر آئیں گے۔ عصر کے تھوڑی دیر بعد محترم شاہ صاحب تشریف لائے اور آتے ہی دو تین بار فرمایا ’’میں آپ کے مرشد کے حکم پر آیا ہوں‘‘۔ ایک دو باتیں اور بھی کہیں جن کا ذکر مناسب نہیں۔ میں عقلمند ہوتا تو سوچتا کہ میرے مرشد کا وصال یا انتقال ہوئے بیس برس گزرے۔ سائنس کے اصول کے مطابق مرحوم شخص زندہ کو کیسے کچھ کہہ سکتا ہے؟ لیکن مجھے یقین تھا کہ محترم شاہ صاحب درست فرما رہے ہیں۔ بعد ازاں اس کی تصدیق بھی ہو گئی۔ میرے مرشد کا انتقال 1994میں ہوا۔ جوتی وہ پہنتے نہیں تھے صرف دو جوڑے کپڑے اُن کی کل جائیداد تھی۔ ملنے گیا تو وہاں پر موجود چند حضرات کو مخاطب کر کے کہا ’’ابے اس سے ملو۔ یہ محکمہ تعلیم کا سب سے بڑا افسر ہے‘‘۔ میں نے بات سنی اور ادب کی خاموشی میں ڈوب گیا۔ 1997میں مرشد کے انتقال کے تین برس بعد میں وفاقی حکومت میں سیکرٹری وزارتِ تعلیم مقرر ہوا تو مرشد کا فرمان سمجھ میں آیا۔ یہ دیگچی کا فقط ایک دانہ ہے۔

2013میں محمد نواز شریف کے عروج کا دور تھا۔ وہ جلا وطنی سے سرخرو ہو کر تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔ میں دسمبر 2004سے ریٹائر ہو کر آزاد زندگی گزار رہا تھا۔ ایک روز انگریزی کے ریٹائرڈ پروفیسر نذیر صاحب نے میاں جی سے کہا کہ ڈاکٹر صفدر ریٹائرمنٹ سے قبل جنرل مشرف کے زیر عتاب چار سال او ایس ڈی رہا، اب میاں نواز شریف وزیراعظم بن گئے ہیں۔ دعا فرمائیں انہیں کوئی اچھا ’’جاب‘‘ مل جائے۔ فوراً جواب ملا ’’وہ تو ذلیل ہوں گے ہی، اِسے کیوں ذلیل کرواتے ہو‘‘۔ کیا یہ بات 2013میں عقل میں آ سکتی تھی؟ میں مارچ 2018 میں امریکہ جا رہا تھا۔ محترم سرفراز شاہ صاحب سے طویل عرصے کے بعد ملنے گیا۔ میاں نواز شریف کا ذکر آیا تو شاہ صاحب نے کہا ’’میں اُن کو جیل میں دیکھ رہا ہوں۔ اُن کی زندگی کو خطرہ ہے‘‘۔ مجھے ان کی بات سن کر صدمہ ہوا لیکن چپ رہا البتہ یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ شاہ صاحب کی بہت سی باتیں تشنہ تکمیل ہیں اور کئی تشنہ حقیقت ہیں۔ غائب کا علم صرف اللہ کے پاس ہے اور اللہ ہی اپنے پیاروں کو درجہ بدرجہ عطا فرماتا ہے، کسی کو کم کسی کو زیادہ۔

تازہ ترین