• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی امریکہ کا اتحادی ملک ہونے کے ناتے اپنی زیادہ تر دفاعی ضروریات یعنی ساٹھ فیصد سے زائد امریکہ ہی سے پوری کرتا ہے۔ ترکی نے شام کی جنگ کی وجہ سے اپنے علاقائی دفاع کے لیے امریکہ سے پیٹریاٹ میزائل کے حصول کی خواہش ظاہر کی لیکن امریکہ نے اپنے یورپی اتحادیوں کے دبائو کے باعث پیٹریاٹ میزائل فروخت کرنے سے انکار کر دیا اور یہی انکار ترکی اور روس کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا موجب بنا۔

ترکی نے روس سے ایس 400دفاعی میزائل سسٹم کی خریداری کے ڈھائی ارب ڈالر مالیت کے سمجھوتے پر دستخط کیے اور ان میزائلوں کی پہلی کھیپ حاصل کرلی جس پر امریکہ سمیت نیٹو کے دیگر اتحادی ممالک نے نیٹو مخالف ملک (روس) سے ایس 400سسٹم کے حصول کو نیٹو کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا کیونکہ ترکی کا فوجی سسٹم اور بارڈر ڈیفنس سسٹم نیٹو کے مرکزی نظام سے منسلک ہے۔

یورپ کے ان خدشات پر امریکہ نے ترکی کو ایف 35سٹیلتھ جنگی طیاروں کی فروخت روک دی حالانکہ ترکی ان جنگی طیاروں کی پروڈکشن میں شراکت دار بھی ہے اور ستم یہ کہ امریکہ نے شام میں اپنے قدم جمانے کے لیے دہشت گردوں کی نہ صرف پشت پناہی کی بلکہ ان کو ٹریننگ بھی دی جس پر ترکی نے برہمی کا اظہار کیا اور ترک امریکہ تعلقات میں سرد مہری آنا شروع ہوگئی۔

ترکی نے امریکہ کی جانب سے اسلحے کی فروخت کو محدود کرنے پر مقامی سطح پر ہتھیاروں کی صنعت کو جدید بنیادوں پر استوار کیا اور صدر ایردوان کے مطابق ترکی نے نہ صرف اپنی فوجی ضرورت کا 70فیصد تک اسلحہ خود تیار کرنا شروع کر دیا ہے بلکہ دنیا کو اسلحہ فروخت کرنے والے 14ویں بڑے ملک کی حیثیت بھی اختیار کر لی جس کا امریکہ کو بھی احساس ہو چکا ہے۔

ترکی نے امریکہ کی جانب سے شمالی شام میں امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد علاقے میں کسی بھی صورتحال سے نمٹنے اور دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر شمالی شام میں ’’سیف زون‘‘ قائم کرنے کے لیے ’’چشمہ امن‘‘ فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔

صدر ٹرمپ کو ابتدا میں اس فوجی آپریشن پر خاموشی اختیار کیے جانے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ان پر کرد اور عرب جنگجوئوں پر مشتمل شامی ڈیمو کریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے نام سے قائم اتحاد کو تنہا چھوڑنے کا الزام لگایا گیا جس پر ٹرمپ نے ان کرد جنگجوئوں کے بارے میں کہا ’’یہ فرشتے نہیں ہیں‘‘ نیز یہ بھی کہہ ڈالا ’’یہ ہماری سرحدیں نہیں ہیں اور ہم اپنی جانیں اس پر قربان نہیں کریں گے‘‘۔

صدر ٹرمپ کے اس بیان اور ترکی کے ’’چشمہ امن‘‘ آپریشن کے بعد پڑنے والے شدید دبائو کے نتیجے میں صدر ٹرمپ نے فوری طور پر نائب صدر مائیک پینس اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو ترکی روانہ کیا تاکہ شمالی شام میں ترکی کے فوجی آپریشن کو روکا جا سکے۔

اس سے پہلے وہ ترک معیشت کو تباہ کرنے کی بھی دھمکی دے چکے تھے۔ امریکی نائب صدر مائیک پینس کے انقرہ پہنچنے پر پہلے تو صدر ایردوان نے ملنے سے انکار کر دیا کیونکہ صدر ٹرمپ نے ایک روز قبل ہی ترک صدر ایردوان کے نام اپنے خط کو منظر عام پر لاتے ہوئے تنبیہ کی تھی ’’زیادہ سخت بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیوقوفی مت کرو‘‘۔

صدر ایردوان نے اس خط کا جواب نہیں دیا، وہ تیرہ نومبر کو امریکہ میں اس خط کو واپس ٹرمپ کو دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم اسی دوران انہوں نے امریکی نائب صدر سے ملاقات کی ہامی بھر لی اور اس طرح امریکی نائب صدر مائیک پینس کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ طے پایا جس کے نتیجے میں شمالی شام میں ترک فوج کے ’’چشمہ امن‘‘ کو پانچ روز کے لیے روک دیا گیا تاکہ علاقے میں مو جود تمام دہشت گرد تنظیموں کے جنگجوؤں کو اپنا بھاری اسلحہ چھوڑتے ہوئے علاقہ خالی کرنے کا موقع میسر آ سکے۔ ا

س موقع پر ترکی کے صدر ایردوان نے کہا ’’اگر کرد جنگجوؤں نے منگل کی شام تک شمالی شام میں مجوزہ ’سیف زون‘ والے علاقے سے اپنے انخلا کو مکمل نہ کیا تو باقی ماندہ جنگجوؤں کا سر کچلنے سے گریز نہیں کریں گے‘‘۔

پانچ روز کی جنگ بندی کے باضابطہ اعلان سے قبل ہی صدر ٹرمپ نے ٹویٹر پر پیغام جاری کیا ’’لاکھوں جانیں بچ جائیں گی، مجھے سب پر فخر ہے‘‘۔ جنگ بندی کے اعلان کے بعد صدر ٹرمپ نے صدر ایردوان کی تعریف کرتے ہوئے کہا ’’وہ ایک بہترین رہنما ہیں، جنہوں نے درست فیصلہ کیا‘‘۔

ترکی کی جانب سے قائم کیے جانے والے سیف زون سے کرد جنگجوؤں کے انخلا کے لیے ایردوان روسی صدر ولادیمر پیوٹن سے مذاکرات کی غرض سے روس کے بحیرہ اسود کے شہر ’’سوچی‘‘ روانہ ہوئے (صدر ایردوان نے اسی دوران پاکستان کا دورہ کرنا تھا لیکن علاقے کی صورتحال کی وجہ سے انہوں نے دورہ ملتوی کر دیا) جہاں انہوں نے روس کے صدر سے چھ گھنٹے مذاکرات کیے اور مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان کرد جنگجوؤں کو ترکی اور شام کی متصل سرحد سے دور رکھنے کے تاریخی معاہدے کی منظوری دے دی گئی۔

طے پانے والے معاہدے کی رو سے سیف زون سے روسی اور شامی فوجی دستے کرد جنگجوؤں کے انخلا کی نگرانی کریں گے جبکہ کرد جنگجوؤں کو انخلا کے لیے 150گھنٹوں کی مہلت دی گئی ہے تاکہ وہ ترکی کے ساتھ ملنے والی سرحد سے 30کلو میٹر دور شامی علاقے منبج کے مشرق میں دریائے فرات کے تمام حصے کو خالی کرتے ہوئے عراق کی سرحد کی طرف چلے جائیں۔

اس تمام کارروائی کی ترک اور روسی فوجی دستے نگرانی کرتے رہیں گے۔ ترکی کے ساتھ معاہدے کے بعد روسی صدر نے شام کے صدر بشار الاسد کو ٹیلی فون کرتے ہوئے طے پانے والے معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔

صدر بشار الاسد اس معاہدے سے اس لیے بھی خوش ہیں کہ ان کو وہ علاقہ بھی واپس مل چکا ہے جس کی حاکمیت وہ شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران کھو چکے تھے جبکہ صدر ایردوان کو شام کی حدود کے اندر ہی سیف زون قائم کرتے ہوئے ترکی میں پناہ لیے ہوئے 35لاکھ مہاجرین کو اس علاقے میں بسانے کا موقع میسر آئے گا جبکہ صدر پیوٹن مشرقِ وسطیٰ میں روس کی گرفت مضبوط بنانے پر ہی نہال ہیں۔

تازہ ترین