• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی معیشت کے حوالے سے کچھ ہفتے پہلے آرمی آڈیٹوریم پنڈی میں ایک سیمینار منعقد ہوا تھا جس میں ملک کے صنعت کار اور تاجر، مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور حماد اظہر بھی موجود تھے۔ اس سیمینار میں صنعتکاروں اور تاجروں نے اپنے مسائل اور تحفظات سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ معیشت میں استحکام ملک کی بقا کے لئے بہت ضروری ہے، معیشت اور دفاع کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے۔ اس حوالے سے میں اپنے آرٹیکل میں جو یکم اکتوبر کو شائع ہوا تھا یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ کراچی نہ صرف یہ کہ بانی ٔ پاکستان کی جائے ولادت اور آخری آرام گاہ ہے بلکہ یہی وہ واحد شہر ہے جو قیام پاکستان کے بعد 15سال تک پاکستان کا دارالحکومت رہا اور یہی وہ شہر بھی ہے جو ریاست پاکستان کو سب سے زیادہ ریونیو فراہم کرتا ہے جس سے پاکستانی حکومت کارِ مملکت انجام دیتی ہے۔ اس تفصیل کے بعد اگر یہ کہا جائے کہ کراچی شہر کے ریونیو سے ہی ملک کا پہیہ چل رہا ہے تو غلط نہ ہوگا۔

لہٰذا کراچی جو پاکستان کی معیشت کا واحد سہارا ہے، حکمرانوں کی عدم توجہی سے اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ اب اس کی کوئی کل سیدھی نہیں رہی۔ انفرا اسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ نہ سڑکیں درست ہیں، نہ سیوریج کا نظام درست ہے، نہ لوگوں کے لئے صاف پانی میسر ہے، نہ عوام کے لئے ٹرانسپورٹ ہے۔ گندگی کے ڈھیر ہیں، صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی ملک دشمن قوت ہے جو مسلسل کراچی کا استحصال کر کے کراچی کو جو پاکستان کی معیشت کی شہ رگ ہے، گلا گھوٹنے پر تلی ہوئی ہے۔ کروڑوں کی آبادی، پڑھے لکھے نوجوانوں کےلئے روزگار کا نہ ہونا اور مسلسل بیروزگاری یہ سازش ہے۔ اس شہر کی آبادی میں مسلسل اضافہ، سہولتوں کا فقدان، کراچی کو کہاں لے جایا جا رہا ہے۔

لہٰذا اربابِ اختیار کو ایک سیمینار بے یارو مدد گار کراچی کے لئے بھی کرنا چاہئے۔ اس شہر کو از سر نو تعمیر ہونےکی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں کراچی کے 6؍اضلاع جن میں 18ٹائونز کے چیئرمین، اس شہر میں موجود وفاقی ادارے ریلوے، کراچی پورٹ ٹرسٹ، کنٹونمنٹ اور بورڈ آف ریونیو کی زمینیں ہیں۔ انکے سربراہوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے ان میں کمشنر، میئر، 6ڈپٹی کمشنرز تمام اداروں کے چیف ایگزیکٹو، اور ٹائون چیرمین شامل ہوں۔ یہ کمیٹی کراچی میں از سرنو سڑکوں کی تعمیر کے لئے منصوبہ بندی کرے۔ یہ سڑکیں اس طرح بنائی جائیں کہ بارشوں میں ان کے ذریعہ گھروں میں پانی داخل نہ ہو۔ بجلی کا نظام جو کے الیکٹرک سے قبل کافی حد تک نارمل تھا، اب بدترین ہو گیا ہے جب کہ صرف فی یونٹ 100گنا سےزیادہ ادا کررہا ہے۔ اس کے باوجود لوڈشیڈنگ کی سزا بھگت رہا ہے۔ اس حوالے سے منظم اور مربوط نظام تشکیل دیا جائے۔ آب رسانی کا نظام بہتر کیا جائے۔ K4منصوبے پر 4ارب روپے سے کام شروع ہوا تھا، جو روک دیا گیا، ذمہ داروں کو سزا دی جائے اور اس حوالے سے منصوبہ بندی کر کے کراچی کے شہریوں کے لئے پینے کے صاف پانی کا انتظام کیا جائے۔ ٹریفک نظام میں بہتری کے لئے متبادل راستے بنائے جائیں تاکہ لوگوں کا قیمتی وقت برباد نہ ہو۔ ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے، گرین لائن پروجیکٹ جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے، لوکل ٹرین فوری چلانے کے لئے ڈیڈ لائن مقرر کی جائے تاکہ بےہنگم ٹریفک کم ہو اور لوگوں کو ماحولیاتی آلودگی سے بچایا جا سکے۔ کراچی کے 6ڈسٹرکٹس میں سول اسپتال کی طرز کے اسپتال قائم کیے جائیں۔ نیز کارڈیو ویسکیولر کے مریضوں کے لئے بھی ایک اسپتال قائم کیا جائے۔ قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ ڈینگی اور کتے کے کاٹے کے مریضوں کے لئے اسپتالوں میں ویکسین تک نہیں، ایسا لگتا ہے کہ انہیں دیکھنے والا کوئی نہیں۔ لوگ مر رہے ہیں، کوئی انصاف دینے والا نہیں۔ پولیس کے گھوسٹ ملازمین جو صرف عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں، جن کے جرائم اور ڈاکوں میں ملوث پائے جانے کے ثبوت بھی موجود ہیں، کو فارغ کیا جائے اور کراچی کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو پولیس میں ملازمت دی جائے۔ آسان شرائط پر چھوٹی بڑی صنعتوں کے لئے میرٹ پر زمینیں الاٹ کی جائیں اور بیرون ملک مشینری منگوانے پر ڈیوٹی فری کی جائے تاکہ روزگار کے دروازے کھلیں، ذوالفقار علی بھٹو کی طرح عرب ریاستوں میں پاکستانی ہنر مندوں کو بھیجنے کے لئے مذاکرات کیے جائیں۔ کراچی میں تعمیر نو کے لئے فوج کے کور آف انجینئر سے مدد لی جائے اور انہی کی نگرانی میں ترقیاتی کام کرائے جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو کراچی اپنی حقیقی صورتحال میں بحال ہو کر پاکستانی معیشت کا مزید بوجھ بھی برداشت کر سکے گا۔ دوسری جانب اگر کراچی کی جانب توجہ نہ دی گئی تو پھر اس کا خمیازہ سب کو بھگتنا ہوگا۔ کراچی کی طر ف سے لاپروائی پاکستان کے استحکام سے لاپروائی ہوگی۔ جس طرح غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی مشکل ہو رہی ہے اسی طرح اگر کراچی کو فوری طور پر جنگی بنیادوں پر ازسر نو تعمیر نہ کیا گیا تو ملک کا ستر فیصد ریونیو والا خلا کون پورا کرے گا۔

تازہ ترین