• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمعرات کے روز کراچی سے پشاور کیلئے گرمِ سفر ٹرین تیزگام کو صبح سوا چھ بجے لیاقت پور کے قریب پیش آنے والے المناک حادثے سے پورے ملک کی فضا سوگوار ہے۔ چلتی ٹرین کی تین بوگیاں اچانک آگ کی لپیٹ میں آ گئیں اور 74مسافر کچھ اس طرح جھلس کر جاں بحق ہو گئے کہ 58میتیں ناقابلِ شناخت ہیں، جن کی شناخت کیلئے ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کروانا لازم ٹھہرا ہے۔ 90سے زائد زخمیوں میں سے بیشتر کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ جاں بحق ہونے والوں میں بچوں اور خواتین کے علاوہ متعدد افراد کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔ کئی مسافروں نے چلتی ٹرین سے چھلانگیں لگا کر جانیں بچانے کی کوشش میں موت کو گلے لگا لیا یا شدید زخمی ہو گئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق آرمی کے ڈاکٹرز اور ہیلی کاپٹر ایمبولینس کو فوری جائے وقوعہ پر بھیجا گیا اور آرمی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے لاشوں اور زخمیوں کو رحیم یار خان، بہاولپور، ملتان اور کراچی پہنچایا گیا، حادثے کی اطلاع ملنے پر وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے شیخ زاید اسپتال رحیم یار خان کا دورہ کرکے زخمیوں کی عیادت کی۔ شیخ رشید نے ملتان میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا خصوصی شکریہ ادا کیا جن کے احکامات پر آرمی کے ڈاکٹر اور ایئر ایمبولینس کی بروقت کارروائی سے بہت سی قیمتی جانیں بچالی گئیں۔ انہوں نے آگ لگنے کی وجہ گیس سلنڈر کا دھماکا بتائی جس پر بعض افراد ناشتہ تیار کرنا چاہتے تھے، انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ ریلوے حکام کی بھی غلطی ہے کہ انہوں نے سلنڈر کو ٹرین میں جانے دیا۔ دوسری جانب ایک بچ جانے والے مسافر نے لاہور میں بتایا کہ آگ شارٹ سرکٹ سے لگی، دوسرے نے کہا کہ گاڑی روکنے والی زنجیر ناکارہ تھی، مسافروں کے بقول آگ بجھانے والے آلات بھی خراب تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے حادثے کے ذمہ داروں کے تعین کیلئے انکوائری کمیٹی بنا دی ہے۔ حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو 15لاکھ فی کس جبکہ زخمی ہونے والوں کو 5لاکھ فی کس امداد دی جائے گی۔ صدر اور وزیراعظم سمیت تمام اہم سیاسی رہنمائوں نے حادثے پر دلی دکھ کا اظہار کیا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی ٹرین کے سفر کو باسہولت اور محفوظ ہونے کی بنیاد پر ترجیح دی جاتی ہے، وطن عزیز میں بھی تاثر یہی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ دنیا بھر میں اسے جدید ترین ٹیکنالوجی سے مزین کرکے محفوظ تر بنا دیا گیا ہے جبکہ ہمارے ہاں شاید یہ اسی مقام پر بلکہ اس سے بھی بہت پیچھے جاچکا ہے جہاں اسے برطانوی حکمران چھوڑ گئے تھے۔ پھر تعجب کیسا کہ پچھلے بارہ چودہ ماہ میں چھوٹے موٹے درجنوں جبکہ 7بڑے حادثات ہو چکے ہیں جن میں کہیں انسانی کوتاہی کا دخل ہے تو کہیں ٹرین کا خود حادثے کا شکار ہو جانا نہ صرف درجنوں زندگیاں تلف کر گیا بلکہ محکمے کو کروڑوں کا مالی نقصان بھی دے گیا۔ ان حادثات میں 11جولائی کو صادق آباد، 20جون 2019کو حیدر آباد اسٹیشن حادثہ، 17مئی 2019کو نوشہرو فیروز حادثہ، قبل ازیں اپریل میں رحیم یار خان حادثہ، 24دسمبر کو فیصل آباد حادثہ اور 27دسمبر 2018کو دادو میں ہونے و الے حادثے قابل ذکر ہیں۔ اس حوالے سے کسی ایک فرد کو موردِ الزام ٹھہرانا شاید درست نہ ہو البتہ یہ سوال ضرور ہے کہ کس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ بھی کہ ایک تواتر سے ٹرینیں حادثات کا شکار کیوں ہو رہی ہیں؟ حادثات کے تدارک کیلئے کیا گیا؟ وزیراعظم کی تشکیل کردہ کمیٹی کو یہ سارے حقائق تلاش کرنا ہوں گے۔ یہ انکوائری جامع ہونی چاہئے تاکہ ریلوے کو جدید ٹیکنالوجی سے اس طرح آراستہ کیا جائے کہ ہمیں ایسے سانحات آئندہ نہ دیکھنا پڑیں۔

تازہ ترین