• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذہنی دبائو اور فشار طبیعت نے خیالات کے دبائو کا قیدی بنا دیا ہے۔ اپنی داستان میں ہزاروں لاکھوں انسانوں کی داستان پوشیدہ دکھائی دیتی ہے۔ واقعی کسی نے صحیح لکھا تھا ’’اپنا اپنا جہنم ہوتا ہے‘‘ اور شاید یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ’’جنت بھی اپنی اپنی ہوتی ہے‘‘۔

میں 17اکتوبر 2019سے سروسز اسپتال کے بلاک Cکمرہ نمبر 3میں زیرِ علاج ہوں۔ مرض بڑی آنت سے متعلق ہے لیکن 17اکتوبرسے ہی ہڑتال چل رہی ہے۔ پورا اسپتال نعرے بازی، بدانتظامی، سینئر انچارجوں کی بےبسی اور بے اختیاری کا گڑھ بن چکا ہے۔ 28؍اکتوبر کو میری بڑی آنت کے سلسلے میں ’’اینڈو سکوپی‘‘ ہونا تھی، عین وقت پہ منسوخی کی اطلاع ملی، مریضوں کا دماغی انتشار اور تفکر انہیں کہاں پہنچا دیتا ہے اس شخص کا علم اسے نہیں ہو سکتا جو خود اس مرحلے سے نہ گزر رہا ہو۔

میرے یہاں داخل ہونے سے پہلے اسپتال میں یہ ہڑتال کا قصہ جاری تھا مگر یہ حکومت جس نے اس ملک سے پتا نہیں کونسا رہتا سہتا بدلا لیا ہے اور عمران خان اپنی ضدی طبیعت کے بطن سے جو دلائل پیش کرتے ہیں انہیں پڑھ اور سن کے کم از کم دعائیں تو منہ سے نکلتی ہی نہیں، کب یہ سایہ ہمارے سروں کو آزاد کرے گا۔ کہاں جائیں اور کہاں نہ جائیں۔ خیالات کا یہ دبائو بندے کو کون کون سی وادیوں میں بھٹکا دیتا ہے اس کا مجھے ذاتی تجربہ ہو رہا ہے۔

پاکستان کے دو قومی لیڈروں نواز شریف اور آصف زرداری کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، تاریخ میں ایک نہیں کئی محمد تغلق ہوئے جن کے ذاتی خیالات اور سوچوں کی ہزاروں افراد بھینٹ چڑھ گئے لیکن یہ محمد تغلق انسانی تاریخ میں بڑھتے ہی گئے۔ میری اپنی زندگی کے منظر میں ایسے محمد تغلق حکمرانوں کو چھوڑ کر باقی سب عارضی لگتا ہے۔ کبھی کبھی نہیں بلکہ ہر وقت میرے ذہن پر دستک ہوتی رہتی ہے، کیسے کیسے دانشور، صحافی، اہل فکر و نظر سیاستدان اور معروف لوگ تھے آج ان میں سے کسی کو اُن کے نام تک یاد نہیں، یہ محمد تغلق بھی دراصل اسی انجام سے دوچار ہوئے ہیں، ان کی روحیں بھی دوسرے انسانوں کی طرح قبروں میں ہی اترتی ہیں لیکن یہ موت کے احساس سے عاری ہوتی ہیں، قبروں کے آگے ہمارے لئے کیا ہے، کوئی نہیں جانتا۔ آج جو لوگ بہت معروف ہیں، جن کے پائوں زمین پر نہیں ٹکتے، پھدک پھدک اور اچھل اچھل کر دھرتی کے سینے پر اپنے پائوں سے دھمک پیدا کرتے ہیں، یہ بھی ایسے ہی عقل کے اندھوں میں سے ہیں جنہیں یہ شعور نہیں کہ نہ وہ زمین کو پھاڑ سکتے ہیں نہ آسمان تک پہنچ سکتے ہیں لیکن زمین کے اندر چھ فٹ تک جا ہماری طرح ان کے حصے میں بھی آنا ہے۔ سدا حکمرانی خالقِ کائنات کی ہے، عمران خان نے بھی اقتدار سے رخصت ہونا ہے اور میری دعا ہے کہ وہ یہ درد ناک اور عبرتناک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ اس کے جاتے ہی اس کی تحریک انصاف کس طرح کاغذ کے پرزوں کی مانند دنیاوی ہوس پرستوں اور بزدلیوں کی نذر ہوتی ہے کہ ان پرزوں کا بھی نشان نہیں ملے گا۔

میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو خدانخواستہ کچھ ہو گیا تو عمران خان کے ظاہری اور باطنی طاقتوروں کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے مگر افسوس تاریخ اس معاملے میں بھی نہایت بےرحم طرزِعمل کا ریکارڈ سامنے لائی ہے۔

قرۃالعین حیدر کے ایک ناول میں ایسا ہی ایک کریکٹر، میرے جیسی کیفیت سے دوچار ہوتا اور کہتا ہے ’’تم پر خدا کی لعنت ہو، اس نے نیچی آواز میں کہا ’’لیلیٰ کہاں ہے‘‘ لیلیٰ کہیں نہیں تھی۔ میں نے وجود کی بےرنگ واقعیت کو ایک اور خوبصورت لباس پہنا دیا تھا، یہ میرے دماغ کا قصور تھا، امن پرست دماغ، زندگی میں یہ صرف ریوالور ہے اس نے بڑے پیارے ریوالور کو الٹا پلٹا، خدا حافظ۔ اس نے مڑ کر کہا (ریوالور کا لفظ اس کے پکڑنے طاقت کے سمبل کے طور پر استعمال کیا ہے) ممکن ہے اب ہم کسی بہت خوفناک جگہ ملیں۔ جہاں اور زیادہ خوف ہو اور زیادہ تباہی اور موت، پھولوں اور محبت کے زمانے ختم ہو گئے۔ مجھے ابھی بہت کام کرنے ہیں، دنیا کی برائی کی طاقتوں کو میرا انتظار ہے کیونکہ میں نے اپنا آخری وژن دیکھ لیا ہے‘‘ اُس نے آشیانے کے جلے باغ اور ملبے پر نظر ڈالی۔

خدا نہ کرے ہم کسی جلے باغ اور ملبے پر نظر ڈالیں مگر ایک واقعیت ہم سب پر گزری اور آج ہم بوڑھوں سے لے کر نوجوان نسل تک گزر رہی ہے کہ برائی کی طاقتوں کو ہمارا بےچینی سے انتظار ہے کہ وہ کون سا لمحہ ہو وہ ہم بوڑھوں اور ہماری نوجوان نسلوں کو ہڑپ کر جائیں، میرے اپنے پروفیشن کے اُن لوگوں کو جو شہرت اور دولت کے ہاتھوں طبعاً کینڈے سے باہر رہتے ہیں، وہ دنیا کے ان حقائق کو مدنظر رکھیں، زندگی پانی کا بلبلہ ہے، زبان درازیوں سے حقائق نہیں بدلتے، تمہاری شہرت اور ٹیں ٹیں تمہیں بھی زمین کے اُس چھ فٹ سے نہیں بچا سکتی جس طرح اس سے ہم نہیں بچ سکتے، لہٰذا باز آئو، حد میں رہو، زبانوں کو لگام دو، قومی سیاستدانوں کو بےتوقیر کرنے کی بدصورت کی کالک خود پر نہ ملو۔

یہ ایک ذاتی کالم نہیں بلکہ عمران حکومت کے دور میں صرف ایک شعبے کی عملی حالت بیان کی گئی ہے جسے یہاں کے مریض عملاً FACEکر رہے ہیں، ایسے ہی پاکستان کے کاروباری لوگوں کو سرکاری اہلکاروں کا یرغمال بنا دیا گیا ہے اور پنجاب پولیس آج بھی اپنی بے اعتدالیوں میں ویسی ہی ہے جیسے پہلے تھی، کیا کہیں اور کیا نہ کہیں، صرف دعا ہی کر سکتے ہیں اور دعا یہی ہے کہ حالات سدھر جائیں کم از کم ان جگہوں کے جہاں لوگ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔

تازہ ترین