• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں ایسے بہت سے قوانین ابھی تک نافذ العمل ہیں جن میں بیشتر ایسے ہیں جنہیں تاج برطانیہ کے دور میں تقریباً سو سال قبل نافذ کیا گیا تھا۔ ان میں کورٹ فیس سے لے کر دہشت گردی، سائبر کرائم سمیت سو سال پرانے قوانین موجود ہیں جس پر ماضی میں نظرثانی نہیں کی گئی۔ کئی بار اس حوالے سے اعلیٰ سطح پر غور تو کیا گیا لیکن کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہو سکی۔ وزیراعظم کے مشیر برائے قانون و انصاف اشتر اوصاف علی کا کہنا ہے کہ وہ ان پرانے قوانین پر نظرثانی کر رہے ہیں تاکہ انہیں وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھال کر موثر بنایا جا سکے۔ اس ذیل میں وزیراعظم کے مشیر برائے قانون اور انصاف نے توہین عدالت کے قانون کا خاص طور پر ذکر کیا ہے اور ان کا یہ کہنا ہر صورت درست ہے کہ ادارے نہیں ان میں بیٹھے لوگ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں، ماضی میں توہین عدالت کے قانون کا غلط استعمال کیا گیا سینٹ جو ملک کا مقدس ترین ایوان ہے اس میں اس قانون پر بحث ہونی چاہئے۔ یہ بھی وہ قانون ہے جو برطانوی استعمار کے دور سے جاری ہے اور اس پر حکومت نے کبھی توجہ نہیں دی۔ اگرچہ عدالتوں نے قانون کے مطابق اس پر کارروائی کی ہے مگر اس قانون پر جمہوری تقاضوں کے مطابق نظرثانی نہیں کی گئی۔ اسی طرح کورٹ فیس کا فرسودہ نظام جوں کا توں موجود ہے۔ انصاف کے حصول کیلئے اس میں ترمیم کی ضرورت ہے تاکہ مسائل کو بہتر طریقے سے حل کرنے کی راہ ہموار ہو سکے اسی طرح ملک میں اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کو منظم کرنے اور ملک میں معاشی کلچر کے فروغ کیلئے بھی موجودہ قوانین اور طریقہ کار میں بھی ترامیم کی جا رہی ہیں۔ وزیر خزانہ سینٹر اسحاق ڈار نے گزشتہ روز اسلام آباد میں کمپنیز بل 2016کے حوالے سے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ملک میں کاپوریٹ کلچر کو مستحکم کی ضرورت ہے تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی ترغیب دی اور بزنس انڈکس کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔ اس حوالے سے وفاقی سطح پر دو کمیٹیاں کام کر رہی ہیں تاکہ ملک میں اقتصادی و معاشی سرگرمیوں کو نہ صرف موثر بلکہ محفوظ بنایا جا سکے۔ چھوٹی اور بڑی کمپنیوں کو اس طرح منظم کیا جائے تاکہ سرمایہ کاری کو مکمل تحفظ دیا جا سکے۔ اس حوالے سے وفاقی حکومت نے کمپنیز بل 2016کا ایک مسودہ قانون مرتب کیا ہے جس پر مختلف اقتصادی و تجارتی اداروں سے مشاورت کی جا رہی ہے کوشش یہ ہے کہ اسے ایسا مضبوط اور فول پروف بنایا جائے کہ کوئی بھی اس میں شگاف نہ ڈال سکے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے انتہائی صاف و شفاف ماحول پیدا کیا جا سکے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے قانون و انصاف اشتر اوصاف علی اور وزیر خزانہ سینٹر اسحاق ڈار نے قوانین میں نظرثانی کرنے کے جن عزائم کا اظہار کیا ہے وہ خوش آئند ہیں اس سے ملک میں نہ صرف قانون کی حکمرانی کے قیام میں مدد ملے گی بلکہ ان قوانین کے غلط استعمال کا تدارک بھی کیا جا سکے گا۔ ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اداروں میں بیٹھے لوگ اپنے اختیارات کو غلط طور پر استعمال کرتے رہے ہیں اور قانون کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کی گئی جس سے اس قانون کے بارے میں شک و شبہات پیدا ہوئے حالانکہ قانون میں کوئی سقم نہیں تھا اسے توڑ موڑ کر استعمال کیا گیا اور ایسا اس لئے ہوا کہ قانون اور اختیارات میں عدم توازن تھا اور چند با اختیار افراد نے ،جن میں ماضی کے حکمران بھی شامل ہیں، اسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ملک میں ایسے قانون و ضابطے موجود ہیں جن کا نفاذ سو سال پہلے کیا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بھارتی حکومت نے انگریز دور کے تمام قوانین پر نظرثانی کی اور فرسودہ قوانین کو یا تو ختم کر دیا یا اس میں ضروری ترامیم کر کے وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھال لیا لیکن پاکستان میں اس کی ضرورت کا اظہار تو کیا گیا لیکن افرنگ کے فرسودہ ایسے قوانین اب بھی موجود ہیں۔ وزیراعظم کے مشیر کی جانب سے یہ کہنا وقت کا تقاضا ہے کہ سو سال پرانے قوانین پر نظرثانی کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے فوری اقدام کرنے کی ضرورت ہے!!
تازہ ترین