• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فاروق عادل کا سفرنامہ امریکہ مجھے چار دہائیاں پیچھے لے گیا جب میں کابل میں یورپ تک بسوں، ٹرینوں، ٹرالیوں اور ٹرکوں پر سفر کرتا ہوا بالآخر لکسمبرگ پہنچا۔ ایک پھٹیچر سے جہاز پر سوار ہوا جو مجھے نیویارک لے گیا جہاں سے مجھے سینٹ لوئیس جانا تھا اور پھر وہاں غیر معینہ مدت تک قیام کرنا تھا!
جب میں پشاور سے کابل جانے کے لئے پی آئی اے کے طیارے میں سوار ہوا تو اس آدھا گھنٹے کی فلائٹ میں ایئرہوسٹس نے مسافروں سے مشروبات بشمول وہسکی، وائن اور بیئر وغیرہ کے آرڈر لینا شروع کردیئے۔وہ میرے پاس آئی اور پوچھا ”آپ کیا پئیں گے؟“ میں نے کہا ”اورینج جوس پلا دیں“ پھر اس نے میرے ہمراہی سے پوچھا ”آپ کیا پینا پسند کریں گے؟“ ہمراہی نے اس کے جواب میں اپنی نظر کا چشمہ اتارا، اس کے شیشے صاف کئے اور پھر مست نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے رومانی انداز میں کہا ”جو آپ پلادیں“ اس کے نتیجے میں ،میں اپنے جوس سے بھی محروم ہو گیا کیونکہ پھر اس نے بھول کر بھی ہماری طرف رخ نہیں کیا۔ جب ہم کابل ایئرپورٹ پراترے یہ جنوری کامہینہ تھا اور شدید برف باری ہو رہی تھی۔ میرے پاس ایک افغان فوج کے بریگیڈیئر کا ایڈریس تھاجو میرے ایک لاہوری دوست کا رشتہ دار تھا۔ یہ دوست بھی افغان نژاد تھا۔ میں اور میرا ہمراہی لشٹم پشٹم بریگیڈیئر صاحب کے گھر پہنچے۔ شدید سردی سے ہمارے ہاتھ پاؤں سن ہو رہے تھے اور ہماری ناکیں سرخ ٹماٹر جیسی ہوگئی تھیں۔ میں نے دروازے پربیل دی تو کچھ دیر بعد مکان کی بالائی منزل کی کھڑکی کھلی اور قندھاری سیب ایسے رخساروں والی ایک خاتون نے باہر جھانکا۔ میں نے بآواز بلند کہا ”ہم پاکستان سے آئے ہیں اوربریگیڈئرصاحب سے ملنا ہے“اس نے وہیں سے جواب دیا ”وہ حرامزادہ مجھے چھوڑ کر چلا گیاہے“ اور پھر کھڑاک سے کھڑکی بند کردی۔ اس پرمیرے ہاتھ پاؤں پھول گئے کہ اس پردیس میں یہی ایک میری پناہ گاہ تھی۔ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ کیاکریں کہ کھڑکی ایک دفعہ پھر کھلی اور وہی روشن چہرہ دوبارہ نمودار ہوا۔ ”آپ چونکہ پاکستان سے آئے ہو میں اپنا نوکر آپ کے ساتھ بھیجتی ہوں وہ آپ کو اس حرامزادے کے گھر چھوڑ آئے گا۔“ مجھے علم نہیں تھا کہ بریگیڈیئر صاحب شاعر ہیں اور ”حرامزادہ“ ان کا تخلص ہے۔
بہرحال گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتا اور سارا یورپ بائی روڈ کراس کرتا میں بائی ایئر نیویارک اورپھر نیویارک سے سینٹ لوئیس پہنچا جہاں مجھ سے پہلے میرے ماڈل ٹاؤن کے دوست پہنچ چکے تھے۔ وہاں میں نے اور مسعود علی خاں نے یمبرٹ پارک اپارٹمنٹس میں ایک خوبصورت فلیٹ کرائے پر لیا۔ واضح رہے ہم دونوں اس دوران وہاں ایک ریستوران ” لمز“ میں ڈے منیجر اور نائٹ منیجر کے ”عہدوں“ پر فائز ہوچکے تھے، اس ”منیجری“ کی اوقات کیا تھی۔ دفعہ کریں۔ ان فضول باتوں میں کیا پڑا ہے؟ ہمارے ہمسائے میں جینی نام کی ایک ادھیڑ عمر عورت رہتی تھی۔ ایک دن شدید پریشانی کے عالم میں میرے پاس آئی اور جونہی میں نے اس کی پریشانی کا سبب پوچھا اس نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا۔ اس پرمیرے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ میں نے بمشکل اسے چپ کرایا اور کہا ”تم کھل کر اپنے دل کی بات کہو ممکن ہے تمہاری کچھ مدد کرسکوں۔“ اس پر اس نے بھرائی ہوئی آواز میں بتایا کہ وہ اپنی بیس سالہ بیٹی کی طرف سے بہت پریشان ہے۔ وہ ابنارمل ہے۔ یہ سن کر مجھے اس خاتون سے دلی ہمدردی پیدا ہوگئی۔ میں نے پوچھا ”اس کی ابنارمیلٹی کس نوعیت کی ہے؟“ اس نے ایک دفعہ پر رونا شروع کردیا اور بولی ”وہ بیس سال کی ہوگئی ہے۔ اگلے مہینے اکیس کی ہوجائے گی مگر وہ لڑکوں سے دور رہتی ہے۔ اس نے کوئی بوائے فرینڈ نہیں بنایا چنانچہ وہ کبھی رات کو ڈیٹ پر بھی نہیں گئی!“ اس کی اس پریشانی پر پہلے تو میں دل میں کھل کر ہنسا، مگر پھر اگلے ہی لمحے میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنی پریشانی میں حق بجانب ہے۔ اس معاشرے میں اس لڑکی کو ابنارمل ہی سمجھا جائے گا جہاں بلوغت سے پہلے ہی بلوغت کے تمام مرحلے طے کرلئے جاتے ہوں اور اس کے برعکس ایک لڑکی تنہائی کے جزیرے میں اپنی زندگی بسر کر رہی ہو۔ میں بھلا اس خاتون کی کیا مدد کرسکتا تھا سوائے اس کے کہ کہوں میں اسے ”راہ ِ راست“ پرلانے کی کوشش کروں گا۔ بہرحال مشرق اورمغرب کے معاشروں میں بہت عجیب و غریب قسم کا تضاد ہے!
اب چلتے چلتے ایک واقعہ اور بھی سن لیں۔ جب میں نیا نیا امریکہ پہنچا تو وہاں میں نے ایک گھر میں ”پے انگ گیسٹ“ کے طور پر کچھ عرصہ کے لئے قیام کیا۔ میری لینڈ لیڈی ایڈتھ پوری بارہ من کی دھوبن تھی۔ چلتی تھی تو دھرتی ہلتی محسوس ہوتی تھی۔ اس کا شوہر جارج اس کی ضد تھا یعنی بالکل دبلاپتلا سمارٹ۔ ان کی بہت ”کیوٹ“ قسم کی ننھی منی چار بیٹیاں تھیں مگر جارج انہیں بہت بے رحمی سے پیٹا کرتا تھا۔ ایک دن میاں بیوی نے مجھے رات کے کھانے پر مدعو کیا اور بتایا کہ کچھ مہمان اور بھی آ رہے ہیں۔ میں نے باعث ِ تقریب پوچھا تو انہوں نے کہا یہ ایک راز ہے اور رات کے کھانے پر ہی کھلے گا… اس رات میز پر کھانے کی تین چارڈشیں ددھری تھیں۔ مشروبات وماکولات اس کے علاوہ تھے۔ ڈرائنگ روم کے لکڑی کے فلور کو ڈانسنگ ہال کے طور پر استعمال کیا جانا تھا۔ کھانے کے آغاز سے پہلے جارج اپنی نشست سے اٹھا اور مہمانوں کو مخاطب کرکے کہا ”آج ہم نے آپ کو یہ خوشخبری سنانے کے لئے یہاں مدعو کیاہے کہ میں نے اور ایڈتھ نے بالآخر شادی کرنے کافیصلہ کرلیا ہے۔“ اس پر سب سے زیادہ تالیاں ان کی چار بچیوں نے بجائیں!
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے تو فاروق عادل کے سفرنامہ” ایک آنکھ میں امریکہ“ پر اظہار خیال کرنا تھا اور اس کی بجائے میں آپ کو اپنا سفرنامہ سنانے بیٹھ گیا ہوں تو میرے خیال میں آپ شاید شاعر حضرات کی روایات سے ناواقف ہیں اور آپ کوغالباً یہ بھی علم نہیں ہے کہ میں بھی خود کو شاعر ہی سمجھتا ہوں۔ سو اگر پہلے نہیں تو اب یہ بات آپ کو جان لینا چاہئے کہ شاعر حضرات جب اپنے سہ غزلے سنانا چاہتے ہیں تو اپنے معصوم سے مخاطب سے کلام سنانے کی فرمائش کرتے ہیں۔ وہ غریب آدمی اس چکر میں آ جاتا ہے اور پانچ سات شعر سنا کر فارغ ہو جاتا ہے اور پھر اسے رات گئے تک فرمائش کرنے والے شاعر کا کلام سننا پڑتا ہے۔ فاروق عادل پر تو مجھے ویسے ہی غصہ بہت ہے۔ اس نے میرے سفرنامے کے ”ڈھابے“ کے سامنے اپنے سفرنامے کا ایک خوبصورت ڈیپارٹمینٹل سٹور کھول لیا ہے۔ اس کے بعد میں اس کے ساتھ یہی ہاتھ کرسکتا تھا جو ابھی ابھی کیا ہے۔ فاروق عادل کے سفرنامے کے ڈیپارٹمینٹل سٹور میں عجائبات کی دنیا امریکہ کی سیاحت بھی شامل ہے،اس میں اپنے وفد کے رفقاکے خاکے بھی شامل ہیں۔ امریکہ کے اس سفرنامے میں پاکستان کی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو بھی موجود ہے، جذبات کی ایک دنیا بھی ہے اور ٹھنڈے دل سے غوروفکر کا بہت سا سامان ہے۔ اس میں امریکہ کی تعریف بھی ہے اور اس پر تنقید بھی۔ فاروق اپنے اس سفرنامے میں ہر اچھی بات پر آہیں بھرتا نظر آتا ہے اور اس کے دل سے ہوک سی اٹھتی ہے کہ یہ سب کچھ اس کے دیس میں کیوں نہیں؟
یہ سب باتیں اپنی جگہ تاہم سب سے زیادہ متاثر کن چیز اس کا انداز ِ تحریر ہے۔ کہنے کو تو سفرنامے میں نے بھی لکھے ہیں لیکن دل پر جبر کرکے مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ کہاں وہ بات مولوی مدن کی سی! رواں دواں خوبصورت نثر، افسانے کا اسلوب، بظاہر معمولی باتوں میں بڑی بڑی باتوں کی پیوند کاری۔ یہ سب کچھ ہر کسی کو کہاں نصیب ہوتا ہے۔ پہلے میں نے سوچا تھا کہ میں فاروق کے اس سفرنامے کا موازنہ اپنے اور مستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں سے کروں اور اسے بتاؤں کہ ٹھیک ہے تم بہت خوبصورت ہو، بہت ہینڈسم ہو، تمہاری شخصیت پرکشش ہے لیکن کئی ہفتوں کے اس سفر میں کیا کوئی ایک حسینہ بھی تم پر عاشق ہوئی؟ نہیں نا! اب ہمارے سفرنامے پڑھو اور دیکھو کس طرح امریکی حسینائیں ہر صفحے پر ہم پر امڈی پڑتی ہیں لیکن میں نے یہ موازنہ مناسب نہ سمجھا اور اس کے سفرنامے کا یہ ”کمزور“ پہلو
جا چھوڑا تجھے حافظ ِ قرآں سمجھ کر
کہہ کر نظرانداز کردیا!
خواتین و حضرات! ابھی میں نے اور بھی بہت سی باتیں کرنا تھیں لیکن صرف ایک گھنٹہ پہلے لندن کے سفر سے لوٹا ہوں اوربہت تھکا ہوا ہوں۔ یہ ”’لندن“ کا سفر دراصل لاہور سے کراچی تک کا پی آئی اے کا سفر تھا، صبح نو بجے ایئرپورٹ جانے کیلئے گھر سے نکلا تھا اور شام چھ بجے کراچی اپنے ہوٹل کے کمرے میں پہنچا ہوں۔ لاہور لندن فلائٹ آٹھ گھنٹے کی ہے جبکہ لاہور کراچی نو گھنٹے کی ہے۔ اب مجھے زیادہ سمجھ آئی ہے کہ امریکہ کی سیاحت کے دوران فاروق عادل ایسے سچے اور دردمند پاکستانی کے دل سے اس وقت ہوک سی کیوں اٹھتی ہے جب اسے قدم قدم پراپنے خواب بکھرتے نظرآتے ہیں۔
(کراچی پریس کلب میں منعقدہ تقریب میں پڑھا گیا)
تازہ ترین