• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

دھرنوں، لانگ مارچ کی ریس میں اب تک کون آگے؟

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں لانگ مارچ، آزادی مارچ اور دھرنوں کی کہانی آج کی نہیں ہے بلکہ ان کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ان مارچوں اور دھرنوں میں سیاستدان اور مذہبی رہنما حکومتِ وقت کے خلاف متحد ہوئے۔ ان میں سے بعض کو کامیابی ملی جبکہ بعض اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

دھرنوں، لانگ مارچ کی ریس میں اب تک کون آگے؟


پاکستانی تاریخ میں اب تک کا سب سے طویل ترین دھرنا پاکستان تحریک انصاف نے 2014 میں بطور حزب اختلاف کی جماعت اسلام آباد میں دیا تھا جو 126 روز تک جاری رہا تھا۔

مختلف لانگ مارچ، آزادی مارچ اور دھرنوں پر ایک نظر:

 فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ- 2019

جمعیت علمائے اسلام ( ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے 27 اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف مار چ کا اعلان کیا تھا۔ جے یو آئی کے آزادی مارچ کا آغاز کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ سے ہوا۔ مارچ کی سربراہی مولانا فضل الرحمٰن کررہے ہیں جبکہ مارچ کی نگرانی صوبائی سیکریٹری جنرل مولانا راشد محمود سومرو کررہے ہیں۔ مارچ میں جے یو آئی (ف) کے رہنماؤں اور کارکنوں کے علاوہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر جماعتوں کے مقامی قائدین اور کارکن بھی شریک ہیں۔

جے یو آئی ف کے سربراہ نے ڈی چوک پر دھرنے دینے کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ہم اس حکومت کو چلتا کر کے دکھائیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ملک بھر سے قافلے اس مارچ میں شریک ہوں گے اور پاکستان دیکھے گا کہ 15 لاکھ افراد کیسے آتے ہیں۔

آزادی مارچ کے آغاز پر کارکنوں سے خطاب کے دوران مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو استعفیٰ دینا ہوگا، ہم سے این آر او لینے آپ کی ٹیم آئے گی، اسلام آباد میں ہمارا قیام اداروں کے احترام کے تحت ہوگا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ نالائق حکومت کی وجہ سے ملک کی معیشت ڈوب چکی ہے، ملک اس وقت رسک پر ہے، پاکستان کی بقا کا سوال پیدا ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ 27 اکتوبر کو آزادی مارچ نکالنے کا فیصلہ ہم نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے کیا ہے، اگر رکاوٹ ڈالی گئی تو پہلی اسکیم، پھر دوسری اسکیم، پھر تیسری اسکیم ہوگی۔

جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اس مارچ کو ’آزادی مارچ‘ کا نام دیا ہے اور وہ خود اس مارچ کو مکمل طور پر ترتیب دے رہے ہیں۔

طاہرالقادری کا مارچ- 2013

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے 2013 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کیا۔ اسلام آباد کی سخت سردی میں 14جنوری سے 17 جنوری ( چار روز ) تک جاری رہنے والے دھرنے کا اختتام حکومت اور مظاہرین کے درمیان کامیاب مذاکرات پر ختم ہوا۔

علامہ طاہر القادری کے اس دھرنے میں 50 ہزار سے زائد مرد و خواتین نے شرکت کی، جنہیں فتح کی نوید سنائی گئی۔ جس میں مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا جس کے بعد تمام مظاہرین پُرامن طور پر منتشر ہوگئے۔ اگست 2014 میں طاہر القادری نے ماڈل ٹاؤن سانحہ کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اسلام آباد کی طرف ایک مرتبہ پھر مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔

طاہرالقادری کا انقلاب مارچ اور پی ٹی آئی کا مشترکہ مارچ- 2014

2014 میں طاہر القادری کا انقلاب مارچ اور پاکستان تحریک انصاف کا آزادی مارچ اکٹھے کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔

وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے لانگ مارچ کے موقع پر کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے کیے فرنٹئیر کانسٹیبلری (ایف سی) کے تین ہزار اہلکاروں کو اسلام آباد میں طلب کرلیا تھا۔

اسلام آباد میں تعینات پولیس اہلکاروں میں 3 سو سے زائد کمانڈو شامل تھے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں تعینات رینجرز کے اہلکاروں کی تعداد میں بھی اضافہ کردیا گیا تھا۔

طاہر القادری کے لانگ مارچ کے موقع پر چار روز لاہور میں آمد و رفت بھی معطل رہی جبکہ اس دوران ماڈل ٹاون میں علامہ طاہر القادری کی رہائشگاہ کے قریب موبائل فون سروس بھی بند رہی۔

واضح رہے کہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے لاہور میں ’یومِ شہدا‘ کے موقعے پر خطاب کرتے ہوئے 14 اگست کو ’انقلاب مارچ‘ کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’انقلاب مارچ‘ اور ’آزادی مارچ‘ اکٹھے چلیں گے۔ طاہر القادری کے مطابق وہ عمران خان کے ساتھ چل کر ’ظلم کا خاتمہ‘ کریں گے۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا تھا کہ وہ ہر صورت میں 14 اگست کو اسلام آباد میں آزادی مارچ کے لیے نکلیں گے اور اس میں دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کریں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کا دھرنا- 2014

پاکستان تحریک انصاف نے 2013 کے انتخابات میں دھاندلی اور قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی نہ کرائے جانے کے خلاف 14 اگست 2014 کو اسلام آباد کے لیے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔

لاہور سے شروع ہونے والا یہ مارچ دو روز میں اسلام آباد پہنچا۔ جہاں اُنہیں پہلے زیرو پوائنٹ اور پھر آبپارہ چوک رُکنے کی اجازت دی گئی۔ آبپارہ چوک میں پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف الگ الگ اپنے جلسے کرتے رہے اور پھر انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے جانے کا اعلان کیا۔

ہزاروں کی تعداد میں پولیس، ایف سی اور کنٹینرز کی دیواریں، لیکن سب رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے عمران خان اور طاہر القادری 20 اگست کو ریڈ زون میں داخل ہوگئے۔ اس دوران حکومت نے تمام فورس کو پیچھے ہٹا لیا۔

اس کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے 18 دسمبر تک ایک طویل دھرنا دیا گیا۔ جس میں دھرنے کے شرکا نے پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیرِ اعظم ہاؤس کی طرف مارچ بھی کیا۔

آنسو گیس کی برسات ہوئی، ہزاروں شیل فائر کیے گئے، سپریم کورٹ کے گیٹ پر کپڑے لٹکائے گئے۔ ڈی چوک میں جلیبی کی دکانیں بھی کھلیں۔ ڈی جے بٹ کے ترانے بھی چلے۔ لیکن بالاخر 70 دن کے بعد طاہر القادری اور 126 دن بعد عمران خان بھی دھرنا ختم کر کے روانہ ہوگئے۔

علامہ خادم رضوی ،فیض آباد دھرنا- 2017

اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیاتھا۔

حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

آپریشن کے خلاف اور مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

بائیس روز تک جاری رہنے والے اس دھرنے کی وجہ سے جڑواں شہروں کے درمیان سفر کرنے والے لاکھوں شہری شدید مشکلات کا شکار ہوئے۔ روزانہ فیض آباد میں مختلف ججز اور حکومت کو گالیاں دی جاتی رہیں۔ جس کے بعد وفاقی پولیس نے ایکشن شروع کیا اور سو سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔

نواز شریف کا لانگ مارچ- 2017

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ نون نے 2017 میں اسلام آباد سے لاہور تک جی ٹی روڈ پر لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ نواز شریف کنٹینر کے بلٹ پروف شیشے کے اندر سے خطاب کے دوران یہ سوال پوچھتے تھےکہ ’مجھے کیوں نکالا۔‘

وکلا کا لانگ مارچ- (2009- 2007)

9 مارچ 2007 کو اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو عہدے سے ہٹائے جانے پر وکلا نے عدلیہ کی بحالی کے لیے تحریک چلائی۔

تحریک کی وجہ سے ملک بھر میں احتجاج شروع ہوا اور پھر جسٹس افتخار چوہدری، وکلاء رہنماؤں اعتزاز حسن، منیر اے ملک اور علی احمد کرد کی قیادت میں جون 2008 میں پہلا لانگ مارچ کیا گیا۔ جو باآسانی پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکا۔

نواز شریف نے اعتزاز احسن سے اس احتجاج کو دھرنے میں تبدیل نہ کرنے کی درخواست کی اور لانگ مارچ کے تمام شرکا منتشر ہوگئے۔ تاہم یہ تحریک ختم نہ ہوئی اور مارچ 2009 کو ایک بار پھر لانگ مارچ کا سلسلہ شروع ہوا۔

اس بار یہ مارچ لاہور سے نواز شریف کی قیادت میں شروع ہوا اور اسے روکنے کے لیے اسلام آباد اور راولپنڈی کو کنٹینروں کا شہر بنا دیا گیا۔ لیکن یہ مارچ ابھی گجرانوالہ ہی پہنچا تھا کہ اس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے تمام ججز کو بحال کرنے کا اعلان کردیا۔

کہا جاتا ہے کہ اس معاملے میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کردار ادا کیا اور نواز شریف کو لانگ مارچ روکنے کے لیے کہا تھا۔

16 مارچ 2009 کو وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام معزول ججوں کو بحال کرنے کا اعلان کیا اور یوں یہ مارچ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔

تازہ ترین
تازہ ترین