• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

4 سالہ بیٹی کو کتے سے بچاتے ہوئے باپ ریبیز کا شکار


چھ بچوں کا باپ، 45 سالہ محمد سلیم اپنی چار سالہ بیٹی کو لے کر گھر سے باہر نکلا ہی تھا کہ گلی میں پہلے سے موجود آوارہ کتے نے اس کی بیٹی پر حملہ کردیا۔

سلیم نے کتے کا وار اپنے ہاتھوں پر روکا اور دوسرے ہاتھ سے اسے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جس پر کتے نے اس کے دوسرے ہاتھ کا انگوٹھا چبا ڈالا۔ بچی ڈر کر اپنے باپ کی ٹانگوں سے لپٹ گئی جبکہ گلی میں موجود لوگوں نے کتے کو پتھروں اور ڈنڈوں سے مار کر بھگا دیا۔

زخمی سلیم کو فوری طور پر سندھ گورنمنٹ اسپتال نیو کراچی لے جایا گیا جہاں پر کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے اسے عباسی شہید اسپتال منتقل کیا گیا مگر حیران کن طور پر وہاں بھی اینٹی ریبیز ویکسین موجود نہیں تھی۔

4 سالہ بیٹی کو کتے سے بچاتے ہوئے باپ ریبیز کا شکار
سلیم جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہے

عباسی شہید اسپتال میں موجود عملے نے سلیم کے اہل خانہ سے اسپتال کے باہر کسی میڈیکل اسٹور سے ویکسین خرید کر لانے کو کہا، جس کی ایک ڈوز اسے اسی وقت لگا دی گئی اور باقی ویکسین یا دوا اس کے حوالے کرکے کہا گیا کہ اسے کسی بھی کلینک سے لگوا لینا۔

اس وقت سلیم جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہے کیونکہ ڈاکٹروں کے بقول اسے ریبیز کی لاعلاج بیماری لاحق ہوچکی ہے اور اب وہ صرف اس کے درد اور تکلیف کو کم کرنے کے لیے دردکش ادویات ہی دے سکتے ہیں۔

جناح اسپتال کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کے بقول اگر اس مریض کو بروقت اینٹی ریبیز ویکسین لگا دی جاتی تو اسے یہ مہلک مرض لاحق نہیں ہوسکتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ محمد سلیم کو جب گزشتہ روز اسپتال لایا گیا تو وہ ہائیڈرو فوبیا یعنی پانی سے خوف کھانے کی کیفیت میں مبتلا تھا جبکہ دیگر کیفیات اور علامات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ ریبیز کے لاعلاج مرض میں مبتلا ہو چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ کراچی کے دو بڑے اسپتالوں میں کتے کے کاٹے کی ویکسین موجود نہیں تھی جس کی وجہ سے ایک انسان جو کہ اپنے چھ چھوٹے بچوں اور حاملہ بیوی کا واحد کفیل تھا ایک دردناک اور اذیت ناک موت کا شکار ہونے جارہا ہے۔

محکمہ صحت سندھ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سندھ میں 19 افراد ریبیز کا شکار ہوکر اذیت ناک موت کا شکار ہوچکے ہیں جبکہ اب تک پورے سندھ میں دو لاکھ سے زائد افراد کو آوارہ کتے کاٹ چکے ہیں۔

کراچی کے اسپتالوں سے حاصل شدہ اعدادوشمار کے مطابق اس سال 31 اکتوبر تک 90 ہزار سے زائد افراد جن میں زیادہ تر عورتیں اور بچے شامل ہیں آوارہ کتوں کے ہاتھوں بری طرح زخمی ہو چکے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ریبیز جیسی درد ناک موت سے بچاؤ کا واحد ذریعہ ان کتوں کی آبادی کو کنرول کرنا ہے تاکہ کتے کے کاٹنے کے واقعات میں کمی واقع ہو اور وہ چند افراد جو ان کتوں کا شکار بنیں انہیں فوری طور پر اینٹی ریبیز ویکسین کا کورس کروایا جاسکے۔

تازہ ترین