• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت 9سیاسی جماعتوں کی طرف سے جمعیت علمائے اسلام کے زیر اہتمام ملک بھر میں آزادی مارچ کے نام سے پانچ روزہ سرگرمی کے بعد گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت میں ملک کے مختلف حصوں سے آکر جمع ہونے والے مظاہرین سے خطاب کے دوران سیاسی رہنمائوں نے موجودہ حکومت کی کارکردگی پر جس عدم اعتماد کا اظہار کیا اسے یکسر نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ مقررین نے حکمراں پارٹی کی جانب سے انتخابات سے پہلے کیے جانے والے دعوئوں پر پیش رفت میں ناکامی، مہنگائی، بیروزگاری، قومی معیشت کے بیرونی اداروں کے کنٹرول میں ہونے کے تاثر، میڈیا پر پابندیوں، احتساب کے عمل کو صرف متبادل سیاسی قیادت تک محدود کرنے، پارلیمنٹ کے بجائے صدارتی حکم ناموں کے ذریعے قانون سازی، مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کی من مانی پر کسی موثر جوابی حکمت عملی کی تشکیل اور اس پر قومی اتفاق رائے کے حصول کی کوشش نہ کیے جانے سمیت ان تمام معاملات کی نشاندہی کی جن کی بنا پر اپوزیشن رہنما موجودہ حکومت کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیتے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کا موقف ہے کہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو مستعفی ہو جانا چاہیے، آئین کی مکمل پاسداری یقینی بنائی جانی چاہیے اور نئے غیر جانبدارانہ و منصفانہ انتخابات کے ذریعے ایسی حکومت کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے جو اپوزیشن کے بیان کے مطابق حقیقی معنوں میں عوام کی نمائندہ ہو۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی تقریر میں کہا کہ وہ وزیراعظم کے استعفے کے لیے حکومت اور اداروں کو دو دن کی مہلت دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکمرانی عوام کا حق ہے اور عوام ہی کو ملنا چاہیے۔ اپوزیشن رہنمائوں کے بیانات سے نمایاں ہونے والے اشاروں کے حوالے سے پاک فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ غیر جانبدار ہے اور کسی پارٹی کی نہیں جمہوری طور پر منتخب حکومت کی حمایت کرتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے سیاسی مخالفین پر قومی وسائل لوٹنے کے الزامات دہراتے ہوئے کسی صورت استعفیٰ نہ دینے کا اعلان کیا ہے، تاہم اپوزیشن کے حلقے مسلسل مذکورہ موقف کا اظہار کرتے ہوئے زور دیتے رہے ہیں کہ احتساب کے عمل کا دو سیاسی خاندانوں تک محدود رکھا جانا، جیلوں میں ان کے ساتھ انتقامی برتاؤ کیا جانا اور حکومتی حلقوں کے ملزمان کو مسلسل چھوٹ کا ملنا ایسے حقائق ہیں جن سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ بلاشبہ اپوزیشن کا کام حکومت پر تنقید کرنا ہے، اس کا یہ حق تسلیم کیا جانا چاہیے کہ اسے حکومتی کارکردگی میں کوئی خامی نظر آرہی ہے تو اس کی بات پر غور کیا جائے۔ حکومت کیلئے یہ مناسب نہیں کہ وہ اپوزیشن کی تنقید کا جواب الزامات کے ساتھ دے۔ سیاسی مخالفین کے لیے دشمن ملک کے شہری جیسے القابات کا استعمال ایسی روایات قائم کرنے کا سبب بن سکتا ہے جن سے مثبت نتائج کی توقع عبث ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن رہنماؤں کو بھی یہ حقیقت ملحوظ رکھنا چاہیے کہ وہ حکومتی رویے کے کتنے ہی شاکی ہوں، انہیں اپنے بیان و عمل میں احتیاط کے پہلو نظر انداز نہیں کرنا چاہئیں۔ دارالحکومت کے محاصروں سے حکومتیں رخصت کی بھی جا سکتی ہوں تو یہ کوئی صحت مند روایت بہرحال نہیں لہٰذا دونوں جانب سے اب معاملات درست سمت میں آگے بڑھائے جانا چاہئیں۔ حکومت اور اپوزیشن جمہوری نظام کی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ ان دونوں کو مل کر عوام کی خدمت کرنا ہے اور اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ ایک نقطہ نظر یا دوسرے موقف کے اظہار میں وہ شدت اور تندہی نہ آئے جس سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوں۔ احتیاط اور توازن کے تقاضے سب کو ملحوظ رکھنے چاہئیں اور اختلافات کا حل مذاکرات کی میز پر نکالا جانا چاہئے۔

تازہ ترین