• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیخ رشید دردمند مائوں، بہنوں، بزرگوں، بھائیوں کی نظروں میں ہمیشہ کے لیے گر گئے۔ سینکڑوں خاندانوں کی آہ و فغاں ہم وطنوں کی جانیں آگ کی نذر ہو گئیں۔ انہوں نے ذمہ داری قبول کرکے استعفیٰ دے کر تاریخ میں امر ہونے کا موقع گنوا دیا۔ یہ کرسی انسانوں کو اتنا سفاک اور شقی القلب کیسے بنا دیتی ہے۔ عمران خان اپنے ہی اقوال زریں فراموش کرکے بیٹھے ہیں۔ اپنے وزیر ریلوے کو برطرف کرنے کی جرأت نہیں کر رہے ہیں۔ پاکستان کے عوامی المیوں میں ایک اور گہرے اندوہ کا اضافہ ہو گیا ہے۔

کوئی احتجاج کے لیے باہر نہیں نکلا۔ کسی نے اپنی سیاسی سرگرمی روک کر سوگوار خاندانوں کا دُکھ نہیں بانٹا۔ سوشل میڈیا کے بقراط گھر بیٹھے حادثے کے اسباب تلاش کرکے موبائل فونوں کی اسکرینیں سیاہ کرکے اس المناک واقعے کی حساسیت زائل کرتے رہے۔ آفریں ہے جنوبی پنجاب کے ان نوجوانوں پر جو یہ آگ بجھانے نکلے۔ جنہوں نے زخمیوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا۔

انسانیت کی اعلیٰ اقدار سیاسی تماشوں کی چوکھٹ پر واری جا رہی ہیں۔ حکمراں لاشوں پر تخت نشینی کے خمار میں ہیں۔ اختلافات، تعصبات سر اٹھا رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کی اطلاعاتی ٹیکنالوجی میں بھی پندرہویں، سولہویں صدیاں گھس کر پانی پت کی جنگیں دوبارہ کروا رہی ہیں۔

میرے آس پاس میرے ہم عصر درخت سوکھ کر گر رہے ہیں۔ بہت سے کاٹے جا رہے ہیں۔ اکیلے پن کا احساس بڑھ رہا ہے۔ لیکن کہیں کہیں جب نوجوانوں کے چمکتے چہرے، دمکتی پیشانیاں دیکھتا ہوں۔ بچوں کو اسکول جاتے۔ جوانوں کو جامعات کی طرف لپکتے تو میری شاخیں پھر سے ہری ہو جاتی ہیں۔ آئی بی اے کے ساتھ ہی ذہن میں ڈاکٹر عبدالوہاب کا مشفق چہرہ، مہرباں آنکھیں ابھرنے لگتی ہیں۔ ڈاکٹر عشرت حسین یاد آتے ہیں۔ جن کے دَور میں کتنے جدید بلاکوں کا اضافہ ہوا۔ ہال پاکستان بھر کے نوجوانوں سے معمور ہے۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب کے طلبا و طالبات اپنے روایتی پہناوئوں اور زیورات سے توجہ مبذول کروا رہے ہیں۔ یہ میرا اور آپ کا مستقبل ہیں۔ شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور کی دو بہنوں نے اپنے ثقافتی رنگ برنگ لباس اور معصوم گفتگو سے سامعین اور ناظرین کے دل موہ لیے ہیں۔

آج اتوار ہے۔ میں تو برسوں سے آپ کو یاد دلارہا ہوں کہ آج کا دن اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کے ساتھ گزارنا ہے۔ ان کے ذہنوں میں تڑپتے سوالات کے جواب دینا ہیں۔ یہاں اس ہال میں بھی یہ بات ہو رہی تھی کہ نوجوانوں کے پاس سوالات کی ایک طویل فہرست ہے۔ والدین ٹال دیتے ہیں۔ اساتذہ سوالات کی روح سمجھتے ہیں لیکن جواب دیتے وقت نوکری، ترقی، گریڈ حائل ہو جاتے ہیں۔ سندھ کی ایک بیٹی بے خوفی کا مظاہرہ کرکے پوچھ رہی ہے کہ ہمیں نصاب میں ایسی فرسودہ کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں جو حقیقت سے بہت دور ہیں۔ جن میں بتائے گئے ہیروز انسانیت کی اعلیٰ اقدار پر پورے نہیں اترتے۔ ایسے مطالعے کے بعد ہم معاشرے کو آگے کیسے لے جا سکتے ہیں۔ مظہر عباس اور ڈاکٹر توصیف احمد خان سوال کو لائق تحسین قرار دے رہے ہیں۔ پنجاب کی ایک طالبہ کا سوال ہے کہ کھیل میں بھی سیاست کیوں گھس آتی ہے۔ کرکٹ اگر بھارت کا کوئی کھلاڑی اچھی کھیل رہا ہے تو اس کی تعریف غداری کیوں کہلاتی ہے۔ میڈیا کے مقتولین کا ذکر آتا ہے کہ اختلاف کی جرأت پر صحافی مار کیوں دیے جاتے ہیں۔ ان کے قاتل پکڑے کیوں نہیں جاتے۔ ہم ابلاغ کے طالب علم اب میڈیا میں آئیں کہ نہیں۔

یہ انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کنونشن ہے۔ میں پہلی بار شرکت کر رہا ہوں۔ اغراض و مقاصد سے بے خبر ہوں لیکن میں خود ہی لورا لائی کے دورے کے بعد لکھ چکا ہوں کہ بلوچستان، سندھ، پنجاب، کے پی، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو آپس میں ملنے دیں۔ یہ ایک دوسرے سے مل بیٹھیں گے۔ ایک دوسرے کے درد سے آگاہ ہوں گے۔ تب ہی ہم ایک قوم بن سکیں گے۔ آج میں یہی منظر دیکھ رہا ہوں۔ اس لیے خوش ہوں کہ جس تنظیم نے بھی یہ اہتمام کیا ہے، وہ لائق تعریف ہے۔ لیکن مجھے ایک قلق ہوتا ہے کہ ایسی کوششوں کو مستحکم کرنے کے لیے بعد میں اقدامات نہیں کیے جاتے۔ آج کی اصطلاح میں فالو اپ نہیں ہوتا ہے۔ ایسے کنونشن لاہور اور اسلام آباد میں ہو چکے ہیں۔ ان کے بعد کیا شریک طلبا و طالبات آپس میں رابطہ رکھتے ہیں۔ اب تو رابطے کی ٹیکنالوجی بہت تیز رفتار اور وسعت پذیر ہو چکی ہے۔ کیا ان کے گروپس سوشل میڈیا پر ہیں۔ کیا پرنٹ میں وہ آپس میں مربوط ہیں۔

پاکستانی نیشنلزم، پاکستانیت آج کا تقاضا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اب تک پاکستان نہیں بن پائے۔ یہ نوجوان جو ابھی زیر تعلیم ہیں۔ میٹھا پانی ہیں۔ ہمارا معاشرہ کھارے پانی کا سمندر ہے۔ یہ میٹھا پانی سمندر میں مل کر ضائع ہو رہا ہے۔ اسے بچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم بزرگ بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ نوجوان ہم سے بہت آگے ہیں۔ مجھے تو ڈائس پر آکر اپنی تقریر پڑھنے کی عادت ہے مگر جدید طریقہ بیٹھ کر بحث کرنے کا ہے۔ ہمارے ساتھ حمنہ بیٹھی ہیں۔ وہ سوشل میڈیا کی گہرائیاں اور توانائیاں بہت اچھے طریقے سے بتا رہی ہیں۔ میں کچھ نئی باتیں سیکھ رہا ہوں۔ 18ویں ترمیم نے صوبوں کو بااختیار کیا ہے۔ لیکن تربیت نہیں دی۔ اس لیے صوبائی خود مختاری کی بجائے صوبائی تعصبات سر اٹھا رہے ہیں۔ ایسے کنونشن ان تعصبات کو دور کر سکتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کو آگے آنا چاہئے۔ وہ بین الصوبائی مقابلے، ثقافتی شو کریں، طلبا و طالبات کو زیادہ تفصیل سے باتیں کرنے دیں۔

نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

تازہ ترین