پاکستان کئی بڑے سنگین مسائل کا شکار ہے مثلاً ایک انتہائی سنگین مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کا قومی سوال اب تک حل نہیں ہو سکا یعنی یہ سوال حل نہیں ہو سکا ہے کہ بحیثیت قوم ہم کیا ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ دوسرا سنگین مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی استحکام نہیں ہے۔ یہ مسئلہ پہلے مسئلے سے جڑا ہوا ہے اور یہ دونوں مسائل ہماری ریاست کے جینیاتی مسائل ہیں۔ ان کی وجہ سے دیگر سنگین مسائل نے بعد میں جنم لیا۔ ان میں سے ایک سنگین مسئلہ یہ ہے کہ ہماری معیشت قرضوں والی اور مکمل طور پر دست نگر معیشت بن کر رہ گئی ہے اور اسے سدھارنے کا ہر اقدام اس کی مزید تباہی کا سبب بنتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے ایک اور سنگین مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہماری بیورو کریسی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ حالات میں بہتری لانے کے لیے انتہائی موثر، منظم اور بہترین دماغوں پر مشتمل لوگوں کا یہ گروہ یا تو کام کرنے کے لیے تیار نہیں یا بوجوہ کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔ حالانکہ اسی گروہ پر کسی ریاست کا زیادہ تر انحصار ہوتا ہے۔
کافی عرصے سے یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ احتساب کے نام پر ہونے والی کارروائیوں کی وجہ سے ہمارے افسران اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہیں کرتے اور اپنے معمول کے فرائض انجام دینے سے بھی احتراز کر رہے ہیں۔ اس بات کی بہترین انداز میں تصدیق انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسی نامی ادارے کی ایک اسٹڈی میں کی گئی ہے۔ اس اسٹڈی کا عنوان ’’احتساب کے متعدد نظاموں میں بیورو کریسی کے فیصلے‘‘ ہے۔ یہ اسٹڈی سائنسی بنیادوں پر کی گئی ہے اور اس سے جو نتائج اخذ کیے گئے ہیں، ان کی معروضی حقائق سے بھی تصدیق ہوتی ہے۔ اسٹڈی کے لیے گریڈ17 سے گریڈ22 تک کے افسروں سے مختلف سوالات کیے گئے تھے۔ ان کے جوابات انتہائی غور طلب ہیں۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیاکہ وہ محنت بھی کرتے ہیں اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں لیکن وہ نہ تو فیصلے کر رہے ہیں اور نہ ہی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اس امر کا بھی اعتراف کیا گیا کہ کچھ بیورو کریٹس اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں اور کچھ میں صلاحیت کی بھی کمی ہے لیکن زیادہ تر اس بات پر متفق تھے کہ احتساب کے مختلف ہتھکنڈوں کی وجہ سے وہ کام نہیں کر رہے اور فیصلے نہیں لے رہے۔ قومی احتساب بیورو (نیب)، ایف آئی اے اور احتساب کے دیگر اداروں کی کارروائیوں، عدلیہ کی مداخلت اور از خود کارروائیوں اور میڈیا کے رویوں کے ساتھ ساتھ دیگر عوامل پر بھی انہوں نے بات کی، جو بیورو کریسی کو مفلوج بنا رہے ہیں۔
نیب کے کردار کے بارے میں زیادہ تر افسران اس بات سے متفق تھے نیب بیرونی اثر و رسوخ سے آزاد ادارہ نہیں ہے۔ نیب کے افسران میں پیشہ ورانہ تجزیے اور تکنیکی مہارات کی کمی ہے۔ احتساب کے مختلف اداروں کی حدود متعین نہیں ہیں۔ حکومتیں نیب کو ان افسروں کے خلاف استعمال کرتی ہیں، جو سیاسی مخالفین کے قریب تصور کیے جاتے ہیں۔ احتساب کے عمل میں سول سرونٹس کی تضحیک اور توہین ہوتی ہے اور نیب ان کا میڈیا ٹرائل کراتا ہے۔ عدلیہ کے کردار کے بارے میں بھی زیادہ تر سول سرونٹس کا یہی خیال تھا کہ انتظامی امور میں عدلیہ کی مداخلت کا بعض معاملات میں جواز ایک سوالیہ نشان ہوتا ہے اور بڑے پیمانے پر سوموٹو کارروائیوں سے انتظامی فیصلہ سازی میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ عدالتی احتساب کے خوف کی وجہ سے افسران فیصلے موخر کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ خوف اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے تضحیک اور توہین آمیز ریمارکس کا ہوتا ہے۔ میڈیا کے کردار کے بارے میں سول سرونٹس کے تحفظات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ مین اسٹریم میڈیا انتظامی فیصلوں کی درست رپورٹنگ نہیں کرتا، سنسنی خیزی سے گریز نہیں کرتا اور زیادہ تر رپورٹرز انتظامی قواعد اور انضباط سے واقف نہیں ہوتے۔ سول سرونٹس نے سیاسی مداخلت، افسروں کی صلاحیت اور دیگر امور پر بھی اپنی آرا کا اظہار کیا لیکن انتظامی ڈھانچے کے مفلوج ہونے کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کی رائے یہ تھی کہ مختلف اداروں کی سطح پر ہونے والے احتساب میں انصاف، قانون اور روایات کے تقاضوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے خوف ہے اور وہ اپنا کام نہیں کر پا رہے ہیں یا کم از کم فیصلوں سے احتراز کر رہے ہیں۔
پاکستان میں ایک طویل عرصے تک بیورو کریسی (افسر شاہی) کا راج رہا ہے اور اس میں بیورو کریسی اس قدر خوف زدہ نہیں تھی۔ تمام تر بحرانوں کے باوجود حکومتی امور چل رہے تھے اور لوگوں کے کام بھی ہو رہے تھے۔ اب پاکستان کا یہ اہم ادارہ بھی دیگر اداروں کی طرح انحطاط کا شکار ہے۔ اگر کہیں سے بہتری کے لیے اقدام ہو تو اس پر عمل درآمد کرنے والی بیورو کریسی کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ اس پر ہم سب کو سوچنا چاہئے۔ اسٹڈی میں اس سنگین مسئلے کے حل بھی تجویز کیے گئے ہیں، جن کے مطابق فیصلہ سازی کے لیے درپیش چیلنجز کو تسلیم کیا جائے۔ احتساب ضرور ہو مگر بیورو کریسی اور احتساب کے اداروں خصوصاً نیب کے درمیان ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، ویسے بھی احتساب کے نام پر ہونے والی کارروائیوں سے صرف بیورو کریسی کو ہی نہیں، سیاست دانوں، تاجروں، صنعت کاروں اور دیگر شعبوں کے لوگوں کو بھی تحفظات ہیں۔ سیاست، معیشت، تجارت اور بیورو کریسی کے تحفظات پر ضرور غور کیا جائے۔ ورنہ مسائل کی سنگینی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔