• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عوام کو ریلیف میسر ہو تو اپوزیشن حکومت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی، بصورت دیگر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہم نہیں کہتے کسی کے گو گو کہنے سے کوئی چلا جائے گا لیکن جانے کی کئی بنیادیں ضرور رکھی جا سکتی ہیں۔ کریڈیبلٹی کا جانا بھی کوئی کم نہیں ہوتا۔ وقار کا ادھار آسان نہیں، ایسے میں کچھ حاصل ہونا ادھار کے بوجھ تلے آنے کے مترادف ہے۔ پس حکومت کو کچھ بوجھ تو محسوس ہوگا۔ 2014کے دھرنے کے نعروں کی بازگشت کا بوجھ، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کی اداؤں کا بوجھ، مہربانوں و نوجوانوں کے ووٹ کی قدر اور امیدوں کو پورا نہ کرنے کا بوجھ، نعرۂ تبدیلی کا بوجھ۔ بوجھ تو بڑھتا ہے نا، جب بوجھ میں بوجھ ملے۔ جس کو 18سال عوام نے لفٹ نہ کرائی ہو اور جب کرا دی، تو سوچنا تو چاہئے آخر کیوں کرائی؟ آج کے نوجوان اور چند دیگر نے یہ تو ضرور جان لیا کہ 2002تا 2018والے کرپٹ تھے مگر یہ نہ جان پائے جن ’’چھوٹوؤں‘‘ کی وجہ سے ’’بڑے‘‘ کرپٹ ہوئے، وہ چھوٹو اب کدھر ہیں؟ ساری خرابی ان چھوٹوؤں کے آنے جانے میں تو نہیں؟

نئی نسل کیلئے یہ مارچ اور وہ دھرنا محبت ہے یا نفرت مگر جنہوں نے ضیائی جمہوریت میں آمریت اور آمریت میں مذہبیت دیکھی، انہیں یہ بھلا لگتا ہے نہ برا، نیا لگتا ہے نہ پرانا، بس اتنا پتا ہے ہم نے ساتھ دینا ہے ’’پسند‘‘ کا اور تنقید کرنی ہے ناپسند پر، جذبات کے دائرے، خواہش کے حصار اور احترام میں کیونکہ ہم روٹی، کپڑا اور مکان کے لئے ڈنڈے چکھ چکے اور اسلام آباد براستہ اسلام کا ثواب کما چکے۔ حب الوطنی کے سرٹیفکیٹس لے چکے اور چھین بھی چکے۔ کوئی بات نئی نہیں، دو چار لوگ نئے ہیں، باقی گر کوئی نیا ہے تو ڈی این اے پرانا۔ بات وہی کہ ’’مجھے اب فرق نہیں پڑتا، کسی کے پاس آنے سے، کسی کے دور جانے سے، کسی کے مان جانے سے، کسی کے روٹھ جانے سے‘‘

1947سے 1972تک پاکستان آئین کی تلاش میں رہا اور 1973سے تاحال آئین پاکستان کی تلاش میں ہے۔ تحریک پاکستان کے بعد سیاستدانوں کی پہلی ملکی پریم کہانی 1973کا آئین بننا تھا۔ پھر ایک یکجہتی میثاق جمہوریت تھا۔ اگرچہ تاریخ پھر میثاق جمہوریت کی متلاشی ہے مگر میسر وہی پرانی ڈگر۔ جنگوں کے بعد کوئی ارتقائی یا انقلابی دور نظر آیا نہ حکومتوں نے کچھ نیا کیا۔ بس ذوالفقار علی بھٹو بتا گیا کہ عوام طاقت ہیں اور عوامی شعور ریاستی روح، تھوڑا سوشلزم متعارف ہوا اور کچھ ہیومن رائٹس نے کروٹ لی جسے بعد ازاں ضیائی تالیف نے روند ڈالا۔ یہاں تو ہر دور کو ’’پاسباں‘‘ ملے آمر کے جمہور خانے سے! بدلتا کیا؟

موسم بدلا نہ نصیب، تبدیلی آئی نہ کرپشن گئی، بقول حکومتی امپورٹڈ ماہرین اتنے ارب باہر نہیں گئے جتنے انتخابی مہم میں بتائے گئے، یہ انتخابی مہمات بھی نا، بس۔۔۔! بعد از کپتان ’’ہردلعزیز‘‘ اسد عمر تک نے کہہ دیا کہ مافیا کی خان تک رسائی ہے... تو فرق کیا پڑا؟ آہ! آج کے مارچ کے اسلام آباد کے پہلے دن کے کھیل کے سٹروکس اور جوکس 2014کے دھرنے والے ہی ہیں۔ پھر وقت کیا بدلا اور نصیب میں کیا تغیر ہے؟ ہاں ایک تبدیلی یقیناً نمایاں ہے کہ 2014کی حکومت کے ساتھ اس وقت کا اپوزیشن لیڈر اور ایک جماعت کے سوا ساری اپوزیشن کھڑی تھی مگر آج حکومت اکیلی ہے!

فرق یہ بھی کہ 2014والا دھرنا امپائر کی انگلی کے کھڑے ہونے کا منتظر تھا جس کا بار بار ذکرِ خیر ہوتا، مگر اس آزادی مارچ میں مولانا اور بلاول سے شہباز شریف تک جمالِ یار کی باتیں تو تھیں مگر انگلی کی توقع نہیں، بلاشبہ عوامی تعداد اور نظم توقع سے زیادہ ہے۔

جانے کیوں ہم بطور لیڈر حتیٰ کہ کامیاب لیڈر ہو کر بھی آدھورا سچ بولتے ہیں؟ شاید اس لئے کہ ہمارے ہاں جھوٹ بھی سچ کے بھاؤ بکتا ہے۔ اوپر سے مہنگائی میں کمی اور معیشت میں بہتری نہ لا پانے کی پاداش میں مخالفین کی کرپشن کا بہانا زلفِ یار سے بھی دراز ہو چکا، داخلی و سیاسی چیلنجز کا سامنے کے بجائے مسئلہ کشمیر کے پیچھے چھپنا اپنوں کو تو جاندار عمل لگتا ہوگا، غیر جانبداروں کو بالکل نہیں۔ سربراہِ حکومت نے جی بی سے آواز دی این آر او نہیں دوں گا، جیلوں میں ڈالوں گا۔ گویا موقع فراہم کیا گیا کہ مارچ میں بلاول و شہباز اور مولانا وزیراعظم اور حکومت کو کھل کھلا کر جواب دیں۔ اللہ وزیراعظم کو انصاف کا بول بالا کرنے کی مزید طاقت دے تاہم جب کہیں اصولی بات ہوتی ہے تو کہا یہ جاتا ہے کہ کیس ہمارے بنائے ہوئے نہیں اور فردِ جرم عائد کرنا یا بری کرنا اعلیٰ آزاد عدلیہ کا کام ہے۔ اگر سب کچھ وزیراعظم ہی کر سکتے ہیں تو میاں صاحب جب بزمِ مے میں تھے تو کوتاہ دستی اور محرومی کو کیوں نہ سمجھے، بڑھ کر کیوں نہ اٹھا لیا جب مینا انہی کا تھا؟ اور جو لانچوں اور جہازوں کے ذریعے مال و زر باہر لے جانے کی قدرت رکھتے تھے، وہ بے کسوں کے اکاؤنٹس میں پیسہ کیوں رکھیں گے؟ کبھی کوئی ٹیکنوکریٹ اپنے سابق مالکان کا یہ سچ بھی بتائے کہ 2008تا 2013کی گورنمنٹ اکیسویں سنچری کی متوازن ترین اکانومی دے کر گئی۔ تیل کے ریکارڈ مہنگے 2013کے دور اور دہشت گردی کی انتہا میں 27بلین ڈالرز کی ایکسپورٹ تھی اور 2بلین ڈالرز کا اکاؤنٹ ڈیفیسٹ جبکہ بجلی و توانائی کے نرخ ریکارڈ کم! عالمی منڈی کے ریکارڈ سستے دور میں ڈیفیسٹ 20بلین ڈالرز تھا اور ایکسپورٹ 15سے 20بلین! ہم نہیں کہتے ورلڈ بینک نے 2012اور 2019میں نون لیگ اور پی ٹی آئی کی نسبت پی پی پی کو زیادہ مارکس یا کریڈٹ دیا!

المختصر، دھرنے کی قَسم بے شک مارچ میں دم نکلا، لیکن عوام کو ریلیف میسر ہو، تو اپوزیشن حکومت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی۔ بصورت دیگر کچھ بھی ہو سکتا ہے، آج نہیں تو کل!

تازہ ترین