• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اظہارِ رائے کی آزادی جمہوریت کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔ ایک فلاحی اور جمہوری ریاست اپنے شہریوں کو یہ حق فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق اپنی رائے کا اظہار ریاست کے قانونی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے کر سکیں۔ اس پر کوئی قدعن نہیں ہوتی۔ سیاسی اور سماجی کارکن یا آج کی سیاسی اصطلاح میں سول سوسائٹی کے ارکان کسی سیاسی یا سماجی ایشو پر ایک جگہ جمع ہو کر احتجاج ریکارڈ کروا سکتے ہیں۔ پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے اور حکومت وقت کے اپنے ذرائع سے احتجاج کے محرکات حکومت تک پہنچ جاتے ہیں، جو اربابِ عقل و دانش و بیورو کریسی کے ذریعے ان مطالبات کی جانچ پڑتال کرکے اپنے رد عمل کا اظہار کرتی ہے۔ اس تمام گفتگو کا مقصد قارئین کرام تک آج ملکی و سیاسی فضا میں دھرنے کی بازگشت کے لئے تمہید باندھنا تھا۔ ہمارے علم میں ہے کہ موجودہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی پارٹی تحریک انصاف نے ملکی سیاسی تاریخ کا سب سے طویل دھرنا اسلام آباد کے ڈی چوک میں دیا تھا جس میں انہیں عوامی تحریک کے رہنما علامہ طاہر القادری کی معیت بھی حاصل تھی۔ دھرنے کی یہ جدوجہد رنگ لائی اور عمران خان اس ملک کے وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ تمام سیاسی مخالفین کو پابند سلاسل کر کے امید تھی کہ سیاسی میدان خالی ہو جائے گا۔ جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمٰن جو روزِ اول سے ان کے سیاسی مخالف ہیں، نے ایک سال کی کاوشوں کے بعد دونوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے علاوہ دینی جماعتوں اور عوامی نیشل پارٹی کو بھی اپنے آزادی مارچ اور اسلام آباد کے دھرنے کے لئے راضی کر لیا جس کی وجہ سے ملکی سیاسی پارہ بڑھ گیا ہے۔

سیاسی احتجاج ریکارڈ کرانے کا ایک طریقہ تو یہ تھا کہ پورے ملک میں احتجاجی جلوس نکالے جاتے اور جلسے منعقد کیے جاتے۔ جیسا کہ ملکی سیاسی تاریخ میں ہوتا رہا ہے مگر دھرنے کی سیاست کو فروغ دینے والے عمران خان کو آج اسی دھرنے کی سیاست کا سامنا ہے جس کی داغ بیل انہوں نے خود ڈالی تھی۔ جمعیت علمائے اسلام کی سرکردگی میں سیاسی کارکنان اسلام آباد کی طرف سیاسی مارچ کرنے کے لئے کمر بستہ ہوئے تو حکومت کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی۔ اس کو روکنے کے لئے وہی روایتی اور بھونڈے طریقے اپنائے گئے جبکہ اس جدید دور میں ایسا نہیں کیا جاتا۔ فرانس میں کئی ہفتوں تک پیلی جیکٹ تحریک کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں ختم کیا گیا۔ جوں جوں دھرنے کے دن قریب آئے، لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی جارحیت میں اضافہ ہوتا رہا جس کے باعث حکومت اور فوج کی توجہ بارڈر پر بڑھتی جارحیت کی طرف مبذول ہو گئی جبکہ داخلی محاذ پر سیاسی پارہ بلند سطح پر پہنچ گیا۔ ان دو اہم مسائل کو مل حل کرنے کے لئے جس سیاسی دانشمندی کی ضرورت ہے، وہ نہیں دکھائی دے رہی، مفاہمتی کمیٹی کی تشکیل میں دیر کی گئی جس سے حکومت کی اس سیاسی مسئلے کو حل کرنے کے لئے سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دھرنا دے کر کاروبارِ زندگی منجمد کرنا جمہوری اقدارکے خلاف ہے۔ خصوصاً دارالحکومت میں اس طرح کی سیاسی سرگرمی کا مظاہرہ قطعی جمہوری رویے کی عکاسی نہیں کرتا مگر کیا کیا جائے کہ اس سیاسی کلچر کو فروغ بھی موجودہ بر سر اقتدار پارٹی نے دیا۔ حکومت اور اپوزیشن کو چاہئے کہ سیاسی مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل کریں، طاقت کا استعمال حالات کو بگاڑ کی طرف لے جائے گا لہٰذا بگاڑ سے بچا جائے اور سدھار کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس تنائو کی کیفیت میں بھی سیاسی ڈائیلاگ ضروری ہے۔ جس کے لئے پارلیمنٹ بہترین فورم ہے، بغیر بات کئے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہئے، کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر بات چیت کرنا چاہئے تاکہ سرحدوں اور کشمیر کی دگرگوں صورتحال پر پوری توجہ دی جا سکے اور دشمن ہمارے سیاسی خلفشار سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔

تازہ ترین