• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک مہینے کے وقفے سے کوئٹہ ایک بار پھر لہو میں نہا گیا ہے۔ پاکستانی بچوں ، جوانوں اور بزرگوں کے سو کے قریب لاشے گلیوں بازاروں میں رکھے رہے۔ مرنے والوں کے والدین، بہن بھائی اور معصوم بچے بالیں پہ سر نہوڑائے بیٹھے رہے۔ غمزدہ آنکھوں سے بہتے آنسو بے بسی کی تصویر بنے سوال کرتے ہیں کہ مرنے والوں کا جرم بتایا جائے۔ اس احتجاج کے پس پشت ایسی بے پناہ اخلاقی قوت ہے جو ریاست اور معاشرے کی بنیادیں ہلا سکتی ہے۔ یہ ایک ہولناک تصویر ہے کہ کئی برسوں سے پاراچنار، گلگت، ڈیرہ اسماعیل خاں اور کوئٹہ سمیت پاکستان کے مختلف شہروں اور قصبوں میں قتل ہونے والے ہزاروں پاکستانی شہریوں کا واحد جرم یہ تھا کہ کچھ عناصر ان کے عقائد سے اختلاف رکھتے ہیں۔ عقیدے کی بنیاد پر کسی امتیاز کے بغیر تمام شہریوں کی حفاظت ریاست کا بنیادی فرض ہے اور ہماری ریاست اس فرض کی ادائیگی میں مسلسل ناکام ہو رہی ہے۔ معاشرے میں عقائد کا اختلاف اسی طرح ناگزیر ہے جس طرح زبان اور ثقافت کا تنوع۔ تمام انسان اپنے لئے عقیدے کے انتخاب کا حق رکھتے ہیں۔ ریاست یا معاشرہ کسی شہری سے اپنی مذہبی، لسانی یا ثقافتی شناخت ترک کرنے کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔
ریاستی بندوبست کا مقصد ہی یہ ہے کہ ایسے تمام اختلافات سے قطع نظر تمام گروہوں میں بقائے باہمی، مساوات اور باہمی احترام کو یقینی بنایا جائے۔ عقیدوں کا اختلاف بحث مباحثے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ عقائد کا معاملہ عدالتوں میں طے نہیں کیا جا سکتا۔ عقائد کے اختلاف کو برداشت کیا جاتا ہے۔ اسی رواداری سے معاشرے میں سیاسی اور معاشی توانائی پیدا ہوتی ہے۔ مذہبی اختلافات کی بنیاد پر سیاست ناگزیر طور پر خون خرابے کا شکار ہو جاتی ہے۔ ہم نے پاکستان میں مذہب اور سیاست کو گڈمڈ کر کے ایک بنیادی اجتماعی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ فرقوں اور عقیدوں کی بنیاد پر قتل و غارت سے اس غلطی کے پودے پر برگ و بار آرہا ہے۔ اس خوفناک رجحان کو موٴثر طور پر ختم کرنے کے لئے سیاست میں مذہب کی پیوندکاری ختم کرنا ضروری ہے۔
پاکستان میں عقیدوں کا بے پناہ تنوع پایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں معاشرتی سطح پر رواداری کی جڑیں گہری ہیں۔ پچھلے پچیس برس میں عقیدے کے نام پر ہزاروں افراد کو قتل کرنے کے باوجود فرقہ پرست عناصر ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ یہ امر قابل تحسین ہے کہ کوئٹہ کے حالیہ واقعات کے خلاف لاہور،کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں منعقد ہونے والے احتجاجی دھرنوں میں شہریوں نے فرقہ وارانہ تقسیم سے بالاتر ہو کر حصہ لیا ہے۔ اس ملک گیر احتجاج میں اسکول کے بچوں کا شریک ہونا پاکستان کے بہتر اور پُرامن مستقبل کا اشارہ ہے۔
تاہم یہ حقیقت ہے کہ سرکاری نصاب تعلیم میں تنگ نظری کے جرثومے موجود ہیں۔ دردمند حلقوں نے بارہا اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ملک میں روادار اور پُرامن ثقافت کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کو تعصب سے پاک تعلیم فراہم کی جائے لیکن پیوستہ مفادات نے تنگ نظری کو مذہب پسندی اور ملک دوستی کے مترادف قرار دے رکھا ہے۔ اب اس حقیقت کو تسلیم کرنے کا وقت آگیا ہے کہ تعصب اور تنگ نظری سے پیدا ہونے والی بے حسی بالآخر ریاست اور معاشرت کے تاروپود بکھیر دیتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوئٹہ کے واقعات پر احتجاج حوصلہ افزا ہے تاہم یہ تشویشناک پہلو اپنی جگہ موجود ہے کہ سیاسی رہنما دہشت گردی کے واقعات کی مذمت تو کرتے ہیں لیکن ان فکری رجحانات اور ادارہ جاتی خامیوں کی نشاندہی سے گریزاں ہیں جو ان واقعات پر منتج ہوتی ہیں۔ کیا ہماری سیاسی قیادت وقتی مقبولیت کی خاطر قوم کی صحیح رہنمائی سے کنّی کترا رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ فرقہ پرستی اور جمہوری سیاست میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ دہشت گرد عناصر کی موجودگی سے کسی جماعت کو سیاسی فائدہ نہیں پہنچ سکتا کیونکہ فرقہ پرستی حتمی تجزیئے میں ریاست کی عملداری کو ختم کرتی ہے اور سیاسی عمل کی جڑوں پر ضرب لگاتی ہے۔
جنوری کے دوسرے ہفتے اور پھر فروری میں کوئٹہ کی وحشت کاری کے فوراً بعد کچھ حلقوں کی طرف سے تسلسل کے ساتھ مطالبہ کیا گیا کہ کوئٹہ کو فوج کے حوالے کیا جائے۔ یہ امر قابل غور ہے کوئٹہ میں فوج بلانے کا مطالبہ کرنے والے عناصر شمال مغرب کے قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائی کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئٹہ میں فوج بلانے کا مطالبہ اس لئے کیا جاتا ہے کہ اس سے جمہوری بندوبست کی ساکھ ختم کی جائے۔ یہ بات واضح ہے کہ فوج کی مدد سے فرقہ پرستی کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ فرقہ پرست عناصر کسی جغرافیائی خطے پر قابض نہیں ہیں کہ ان پر فوجی چڑھائی کی جائے۔ یہ تو دہشت گردی کی متفرق وارداتوں کے ذریعے ریاست کی عملداری کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اور ان کا نصب العین یہ ہے کہ پاکستان کے شہری خون خرابے سے تنگ آکر ان کے سامنے سپر ڈال دیں۔ دہشت گردی کی یہ وارداتیں کرنے والے گنتی کے جرائم پیشہ لوگوں کا کوئی ٹولہ نہیں ہیں بلکہ مخصوص سیاسی مقصد رکھنے والا ایک پھیلا ہوا خفیہ ڈھانچہ ہے جس میں کچھ لوگ مالی ذرائع فراہم کرنے پر مامور ہیں،کچھ پروپیگنڈے کے محاذ پر سرگرم ہیں، کچھ منصوبہ ساز ہیں اور کچھ ان کارروائیوں میں نقل و حرکت کی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ ان کے ہمدرد بھی اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں اور ان لوگوں کے چہرے بھی ڈھکے چھپے نہیں جو سیاسی دلائل کی مدد سے اس قابل نفرت رجحان کی آبیاری کرتے ہیں۔ فرقہ وارانہ قتل و غارت کا یہ سلسلہ ہماری سرزمین پر القاعدہ اور طالبان کی آمد سے بہت پہلے شروع ہوا تھا۔ فرقہ پرست عناصر نائن الیون سے پہلے بھی افغانستان میں پناہ لیتے تھے۔ گزشتہ دس برس کے دوران ان فرقہ پرست تنظیموں کا طالبان اور القاعدہ کے ساتھ گٹھ جوڑ مستحکم ہوا ہے۔ اب جبکہ القاعدہ کے متعدد فعال ارکان مارے جا چکے ہیں یا صومالیہ اور یمن کی طرف نکل گئے ہیں اور دوسری طرف افغان طالبان متوقع امریکی انخلا کے بعد کی صورتحال سے نبرد آزما ہیں۔
یہ فرقہ پرست عناصر قتل و غارت کے ذریعے بنیادی طور پر القاعدہ ہی کا ایجنڈا آگے بڑھا رہے ہیں۔ اب مقامی فرقہ پرستی کو عالمی مذہبی دہشت گردی سے الگ کر کے دیکھنا ممکن نہیں رہا۔ اس میں زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ فرقہ پرست سیاست ہمارے ملک کے سیاسی اور مذہبی تاروپود میں گندھی ہوئی ہے اور محدود جغرافیائی موجودگی کی بجائے بندوبستی علاقوں تک رسائی رکھتی ہے۔ چنانچہ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں اپنی سیاسی اور معاشرتی ترجیحات پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمیں جہاں انتظامی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں سیاسی طریقہ کار کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جہاں سیاسی ڈھانچوں میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں انتظامی اقدامات کی دہائی دیتے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں ہم فرقہ پرستی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس عفریت کا موٴثر انسداد کرنے کے لئے سیاسی اور انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے لیکن ہمیں سیاسی ردعمل اور انتظامی اقدامات میں واضح حد بندی کرنی چاہئے۔ اس کے لئے ملک کی سیاسی، عسکری اور تمدنی قیادت میں باہم اعتماد اور ارتباط کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے حالیہ برسوں میں ہم نے اپنا پورا زور صرف سیاسی قیادت کی جڑیں کاٹنے پر صرف کیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کوئٹہ میں ایک بار پھر لاشوں کا بازار سجا ہے اور ہمارا احتجاج موٴثر اجتماعی ردعمل کی صورت اختیار کرتا دکھائی نہیں دیتا۔
تازہ ترین