• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئٹہ کے ہزارے بہت پیارے ہیں اور پیاروں کا دکھ ہزاروں کا مقدر بن گیا ہے۔ موت وحشت بن کے ہزاروں پر ٹوٹ پڑی ہے۔ کوئٹہ کے ہزارے جدھر دیکھتے ہیں انہیں موت ہی نظر آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے موت ہزاروں کے رستے پر براجمان ہوگئی ہو۔ کوئٹہ کے ہزارے کبھی زمین کی طرف دیکھتے ہیں اور کبھی آسمان کی طرف۔ زمین لہو لہو دکھائی دیتی ہے اور آسمان سے موت اُترتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ہر طرف خوف بکھرا ہوا ہے۔ گلیوں میں موت، فضا افسردہ، ہوا میں آنسوؤں کی نمی، شام کے ڈھلتے سایوں میں آہوں اور سسکیوں کی صدا، آوازوں میں بولتا ہوا غم، غم میں آنسوؤں کی جھڑی، دیوار کے سایوں میں چھپی موت، موت کی راہوں میں ہر آنگن غم کی تصویر بنا ہوا ہے۔ تقدیر میں آنسوؤں، آہوں اور دھرنوں کے سوا کچھ نہیں، موت ہر گلے سے لپٹنے کے لئے تیار، فٹ پاتھ کی دیواروں سے لپٹے ہوئے تمام پتے خائف۔ یہی منظر ہے ہزارہ ٹاؤن کوئٹہ کا۔ شاید ایسے ہی کسی منظر کے لئے ناصر بشیر نے کہا تھا کہ
ناصر بشیر کس کی نظر گھر کو کھا گئی
سایہ سا بچھ گیا ہے مرے آنگن میں خوف کا
پچھلے چند مہینے کوئٹہ کے ہزاروں پر آفت بن کے اترے ہیں۔ چند مہینوں میں ایک ہزار کے لگ بھگ ہزارے موت کے منہ میں چلے گئے۔ موت نے ہزارہ ٹاؤن کی طرف اس طرح رخ کر رکھا ہے کہ موت ہزارے نگلتی جارہی ہے۔ دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے والے انتظامی ادارے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ حکمران سوائے تعزیتی بیانات کے اور کوئی فریضہ یاد رکھنے کے قابل نہیں سمجھتے۔ ابھی موسم نہیں بدلا، موسم سرد ہی تھا کہ 87 ہزارے اپنی بے گناہیوں سمیت موت کی وادی میں اتار دیئے گئے تھے، ابھی ان کا چہلم نہیں ہوا کہ ہزارہ ٹاؤن کے آنگن میں 89 لاشیں اور بکھیر دی گئی ہیں۔ جب پہلے اتنی بڑی تعداد میں موت تقسیم ہوئی تھی تو پیارے ہزارے میتوں سمیت بیٹھ گئے تھے۔ انہوں نے اس وقت میتوں کو دفنانے سے انکار کردیا تھا کہ جب تک تحفظ کی بھرپور ضمانت نہیں دی جاتی اس وقت تک ہزارے میتوں کو قبروں میں نہیں اتاریں گے پھر وزیراعظم چند وزراء کے ہمراہ کوئٹہ گئے پھر گورنر راج کا نفاذ ہوا اور میتوں کو سپردخاک کردیا گیا۔ ابھی خاک میں نمی باقی تھی کہ موت نے تازہ قبروں کی تلاش شروع کردی، اکبری منڈی لاہور سے خریدا گیا دھماکہ خیز مواد کوئٹہ کے ہزاروں پر موت بن کر برسا۔ شدت اتنی کہ 89 زندگیوں کو نگل گیا، لگ بھگ سو گھروں کے چراغ بجھ گئے۔ پورے ہزارہ ٹاؤن میں صف ماتم بچھ گئی۔ اس بار پھر غم میں پورا ملک نڈھال ہوگیا، یکجہتی کے اظہار کے لئے ہر شہر میں دھرنے دیئے گئے۔ دھرنوں کا مذاق اڑانے والے سیاستدانوں کی آنکھیں کھلنا شروع ہوئیں تو چند ایک صدائیں پارلیمینٹ کے اندر سے بھی برآمد ہوئیں۔
گورنر راج بھی موت نہیں روک سکا، سیاستدانوں کی تمام حکمت عملیاں ناکامی کا منہ دیکھتی رہیں۔ دھرنے اتنے پُرجوش اور بھرپور تھے کہ پورے ملک کا نظام کار رک کر رہ گیا۔ کہا گیا ہے کہ یہ دھرنے اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک سانحہ کوئٹہ کے شہداء کو دفن نہیں کردیا جاتا۔ ہزارہ ٹاؤن میں دھرنے کے شرکاء کا یہ مطالبہ تھا کہ کوئٹہ فوج کے حوالے کردیا جائے۔ شرکائے دھرنا اس مطالبے پر بھی قائم تھے کہ کورکمانڈر کوئٹہ یقین دہانی کرائیں تب میتوں کی تدفین ہوگی۔
خیال ہے کہ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، میتوں کی تدفین ہوچکی ہوگی۔ لوگوں کو سیاست کے کھلاڑیوں پر اعتبار ہی نہیں۔ ویسے بھی انہیں میتوں سے کیا، وہ تو اقتدار کی نئی بندربانٹ میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے نزدیک عوام کا جان و مال کیا معنی رکھتا ہے انہیں تو اقتدار کی غلام گردشوں کے علاوہ کوئی سوچ ہی نہیں۔ حیرت ہے کہ وہ نام لینے سے بھی گریزاں رہے، جب تمام بڑے لیڈروں کے منہ پر قفل تھا، سب کو سانپ سونگھ گیا تھا تو ایسے میں عمران خان باہمت ثابت ہوا۔ اس نے واشگاف الفاظ میں لشکر جھنگوی کا نام لیا۔ اوللعزم عمران خان نے بے خطر ہو کر کہا زندگی موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ لشکر جھنگوی کا نام لیتے ہوئے نہ کوئی خوف ہے نہ ڈر۔ افسوس صد افسوس قوم کے ان رہنماؤں پر جو موت کے خوف میں مبتلا ہیں، جو ڈر کر لشکر جھنگوی کا نام نہیں لیتے، ایسے رہنما دشمن کی آنکھوں میں کیسے آنکھیں ڈالیں گے۔
صاحبو! میرے پیارے ہزارے موت کی کشتی پر سوار ہیں۔ حالات انہیں بھنور میں لے آئے ہیں۔ ان کے کئی نوجوان جاں سے گزر گئے، کچھ کے بازو نہیں رہے، کچھ کے سینوں پر بارود کے نشان ہیں، کچھ ٹانگوں سے محروم ہوگئے، جنہیں دہشت گرد موت نہیں دے سکے انہیں معذوری دے دی گئی۔ کس کا جی چاہتا ہے کہ اس کا نوجوان لخت جگر ”ہے سے تھا“ بن جائے، کون چاہتا ہے کہ اس کے پیارے کو معذوری نصیب ہو۔ جوان لخت جگر کا لاشہ لحد میں رکھنا بھی تو کاہش جاں ہے بقول سید عارف
جس کو اٹھارہ برس گود میں رکھا جائے
کتنا مشکل ہے اسے گور کے اندر رکھنا
ہزاروں کے لئے یہ سال، یہ موسم بڑا بھیانک ہے انہیں اس موسم میں جتنا ثمر ملا، موت کی صورت ملا،موت جب شاخوں پر اتر آئے تو پھر جتنے پھول کھلتے ہیں وہ قبروں کے دامن سے لپٹ جاتے ہیں، خاک کا رزق بن جاتے ہیں، پھول خوشبو نہیں سوگواری بکھیرتے ہیں، اُداسی پھیلاتے ہیں، آنسوؤں کو تھمنے نہیں دیتے، بس زندہ لوگ جگر تھام کے گورستان جاتے ہیں، قبروں پر پھول بکھیرتے ہیں، شام ہو جائے تو چراغ جلادیتے ہیں، پھر موت کے سندیسے لانے والی اندھی آندھی چراغوں کو بجھا کر رکھ دیتی ہے۔
جب کوئی نوجوان اپنے بھائی کی قبر پر بجھتے ہوئے چراغ کو دیکھتا ہے، اسے پھر روشن کرتا ہے، تیز ہوا پھر چراغ گل کردیتی ہے ایسے میں وہ قبر کے دامن سے لپٹے ہوئے پھولوں کو دیکھتا ہے اور پھر ریحانہ قمر کی زبان میں بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ
پھر پھول کھلیں شاید
اس بار تو لگتا ہے
ہم پھر نہ ملیں شاید
پیارے ہزارے صرف تحفظ مانگتے ہیں، قربانیاں ان کا شیوہ ہے کہ وہ سیدالشہداء جناب حسین کے پیروکار ہیں وہ میتوں کو سامنے رکھ کر ”لبیک یا حسین “ کی صدائیں بلند کررہے ہیں۔ مقام فکر ہے حکمرانوں کے لئے کہ حکومت عوام کے جان و مال کی محافظ ہوتی ہے۔ سوال ایک ہے، سارے دھرنوں کا سوال، کہاں ہے حکومت؟ یہ سوال ہے نام نہاد جمہوری جاگیروں کے مالکوں سے، جنہوں نے اقتدار کی باریاں لگا رکھی ہیں۔ ہر پیارے ہزارے کی زبان پر تحفظ کا سوال ہے، خدا کرے میرے سارے پیارے ہزارے سلامت رہیں۔
تازہ ترین