• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کی سیاسی فضا کے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کشیدہ تر ہوتے چلے جانے پر ہر باشعور پاکستانی بجا طور پر فکر مند ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن کی ہدایت پر ملک بھر سے پہنچنے والے ہزاروں مظاہرین نے جمعے کے جلسے کے بعد دھرنا دے رکھا ہے، وزیراعظم کے استعفے کے لیے اپوزیشن کی نو جماعتوں کی طرف سے دی گئی دو دن کی مہلت ان سطور کی اشاعت تک ختم ہو چکی ہوگی جبکہ تادمِ تحریر حکومت اور اپوزیشن کی مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع نہیں ہو سکا ہے اور دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف دھمکی آمیز لب و لہجے میں بیان بازی جاری ہے۔ وفاقی وزراء نے مولانا فضل الرحمٰن کی جلسے میں کی گئی تقریر پر بغاوت کا مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کردیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس ضمن میں پیر کو عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔ حکومت کا موقف ہے کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں مگر وزیراعظم استعفیٰ دیں گے نہ قبل از وقت انتخابات ہوں گے جبکہ راستے بند کیے گئے تو قانون کے مطابق نمٹیں گے کیونکہ حکومتیں اتنی بھی لاچار نہیں ہوتیں کہ تیس چالیس ہزار بندے آکر قبضہ کر لیں۔ دوسری جانب اپوزیشن کا کہنا ہے کہ جب حکومت کو ہمارے مطالبات پر بات ہی نہیں کرنی تو مذاکرات کی ضرورت کیا ہے۔ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی کے بقول اپوزیشن آئین کی مکمل پاسداری، وزیراعظم کے استعفے اور فوج کی نگرانی کے بغیر نئے انتخابات کے مطالبے پر متفق ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو ڈی چوک تک جانے، ملک گیر شٹر ڈاؤن، ہائی ویز کو بلاک کرنے اور پارلیمنٹ سے اجتماعی استعفوں کی تجاویز زیرِ غور ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ رہبر کمیٹی کے ارکان ان تجاویز کو اپنی جماعتوں کی قیادتوں کے سامنے رکھیں گی اور اس ضمن میں متفقہ طریق کار طے کیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے گزشتہ روز دھرنے کے شرکاء سے خطاب میں کہا ہے کہ جب تک اس حکومت سے جان نہیں چھوٹے گی ہم میدان میں رہیں گے۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ دھرنے کے شرکاء اب تک پوری طرح پُرامن ہیں لیکن موجودہ کشیدہ فضا میں یہ صورتحال کسی بھی وقت منفی طور پر تبدیل ہو سکتی ہے۔ مظاہرین نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مظاہرین میں تصادم کی کیفیت رونما ہوئی تو معاملات ناقابلِ تصور حد تک خراب ہوسکتے ہیں۔ ان حالات میں قوم و ملک کے مفاد کا تقاضا ہے کہ دونوں جانب سے انتہائی اقدامات سے مکمل طور پر گریز کیا جائے۔ فریقین میں سے کوئی بھی تشدد کا راستہ اختیار نہ کرے اور بات چیت کا سلسلہ مزید وقت ضائع کیے بغیر شروع کردیا جائے۔ مذاکرات سے پہلے کسی بھی جانب سے شرائط عائد نہ کی جائیں کیونکہ اس طرزِعمل کا اس کے سوا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا کہ بات چیت شروع ہی نہ ہو، تند و تیز اور دھواں دھار بیان بازی تناؤ میں اضافہ کرتی چلی جائے، اپوزیشن کے احتجاج کا دائرہ ملک بھر میں پھیل جائے اور حالات قابو سے باہر ہو جائیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو یہ حقیقت ملحوظ رکھنی چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتیں عوام کی نمائندگی کرتی ہیں، ملک میں سب کے حامی موجود ہیں، لہٰذا سب قابلِ احترام ہیں اور کسی پربھی ملک دشمنی جیسے الزامات کا عائد کیا جانا جمہوری تقاضوں سے متصادم ہے۔ ایک دوسرے کی نمائندہ حیثیت تسلیم کرنے کے بعد ہی مکالمے کے عمل کا آغاز ممکن ہے۔ سیاسی عمل اور مذاکرات کی کامیابی کی خاطردونوں فریقوں کے لیے اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ سیاسی عمل ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے۔ لہٰذا حکومت اور اپوزیشن دونوں کو پیشگی شرائط کے بغیر فوری طور پر مل بیٹھنا اور موجودہ صورت حال سے ملک کو نکالنے کے لیے کھلے دل اور افہام و تفہیم کے جذبے سے مذاکرات کا آغاز کردینا چاہئے۔ بات چیت شروع ہوگی تب ہی درمیانی راستہ تلاش کیا جاسکے گا۔

تازہ ترین