• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی حکومت کے پہلے وزیر خزانہ اسد عمر کے جاتے ہی وزیراعظم عمران خان نے آئی ایم ایف سے قرضے کی بات چیت شروع کی اور پھر آئی ایم ایف نے اپنی کڑی شرائط پر قسطوں میں قرضے دینے کی ہامی بھری جو ماضی سے زیادہ سخت تھیں۔

مثلاً اس میں پی ٹی آئی حکومت کو صنعتکاروں، تاجروں اور ہر طبقے کے افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانا بجلی، گیس، پیٹرول، ڈیزل اور تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کرنا شامل تھا۔ باوجود دنیا بھر میں پیٹرول کی قیمتیں عالمی سطح پر گر رہی تھیں۔ پھر راتوں رات بغیر وزیراعظم کی اجازت کے نئے مشیروں نے روپے کی قدر اتنی گرا دی کہ عوام کی چیخیں نکل گئیں۔

اس مہنگائی کے بعد ایف بی آر کے نئے چیئرمین شبر زیدی نے بھی تاجروں، صنعتکاروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی نئی حکمت عملی ترتیب دی، 6ماہ میں تاجروں اور صنعتکاروں نے مل کر ایف بی آر سے میٹنگیں کیں مگر معاملات بگڑتے گئے۔ ایک نئی شق شناختی کارڈ 50ہزار کی خریداری پر لازمی قرار دیا گیا تاکہ جو ادارے ابھی تک ٹیکس نہیں دیتے، اُن کی نشاندہی ہو سکے۔ اس طرح فکس ٹیکس لگانے کی بھی کوشش کی گئی مگر معاملات بگڑتے بگڑتے ہڑتال کی نوبت آگئی۔

پورا ملک تاجروں، دکانداروں کی ہڑتال کی زد میں آگیا تو دہرا نقصان ہوا۔ بقول تاجروں کی ایسوسی ایشن 60،70ارب 2دن کی ہڑتال کی نذر ہو گئے۔ اسی طرح حکومت کے بھی کچھ ہاتھ نہیں آیا تو پھر ایف بی آر اور تاجروں کے درمیان فیصلے ہوئے اور معاملہ پھر 3ماہ کے لئے ٹل گیا اور جنوری تک شناختی کارڈ کی شرط موخر کر دی گئی۔ یہ ایسی شق ہے جس کی دنیا بھر میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

یہاں میں پڑوسی ملک بھارت کی حالیہ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ بھارت کی 126کروڑ کی آبادی میں 37ملین یعنی 3کروڑ 70لاکھ ٹیکس افراد رجسٹرڈ ہیں یعنی صرف 3فیصد افراد ٹیکس نیٹ میں آتے ہیں جو بہت تشویش کی بات ہے۔ جبکہ 82کروڑ افراد رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد ہے جس میں 75فیصد افراد یعنی 61کروڑ افراد کا تعلق زمیندار طبقے سے ہے جن پر کوئی ٹیکس ہی نہیں لا گو ہوتا۔ وہ سب ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔

بجٹ تقریر میں انہوں نے مشورہ دیا کہ یہ زمیندار اب پکے مکانوں کے مالک بن چکے ہیں۔ ان کے پاس قیمتی گاڑیاں اور دیگر آسائشیں بھی ہیں، ان کو سرکار مفت بجلی بھی دیتی ہے، ان کے بیجوں پر بھی سبسڈی ہے لہٰذا اب سرکار کو چاہئے کہ ان پر بھی تھوڑا بہت ٹیکس لگایا جائے۔ اس پر کسانوں اور زمینداروں نے بہت شور شرابہ کرکے ٹیکس رکوا دیا۔ انہوں نے بھی ہڑتال اور مظاہروں کی دھمکیاں دیں۔ وہاں کے پڑھے لکھے افراد کی سوسائٹیوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ عوام کو دھمکا کر ٹیکس وصول کرنے کے بجائے جو افراد ٹیکس دے رہے ہیں انہیں خصوصی مراعات دیں۔

ہمارے ہاں ایک طرف ٹیکس امپورٹ کی سطح پر وصول کیا جاتا ہے پھر تمام صنعتی پیداوار پر بھی 17فیصد سیلز ٹیکس ہے جو پوری دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے حتیٰ کہ امریکہ اور کینیڈا جو اس ٹیکس کے موجد ہیں، بالترتیب 7فیصد اور 9فیصد ٹیکس خریدار سے وصول کرتے ہیں، مگر ہمارے ملک میں فروخت سے پہلے ہی صنعتکاروں سے فیکٹری سے مال نکالنے پر وصول کر لیا جاتا ہے اور اسی طرح ہر ہر مقام پر مختلف ناموں سے اور کہیں سرچارج کی آڑ میں ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس بنیادی ضرورتیں تعلیم، اسپتال کی سہولتیں بھی ناپید ہیں۔ کوئی بیروزگاری الائونس بھی نہیں دیا جاتا اور پھر بھی عوام خاموشی سے زندگی گزار رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کی حکومت جس نے 17سال وعدوں کی بھرمار کر کے الیکشن جیتا تھا، سے امید تھی کہ وہ اپنے وعدے پورے کر کے عوام کو سکھ کا سانس لینے کا موقع دے گی مگر سوا سال گزر چکا ہے ساری امیدوں پر اُوس پڑ چکی ہے۔ صرف سیاست سیاست کا کھیل جاری ہے۔ روز پکڑ دھکڑ سیاستدانوں کی تو ہو چکی مگر ان سے کیا نکلا؟ آئی ایم ایف کی چکی میں کب تک اور کہاں تک عوام کو پیسا جائے گا۔ 3ما ہ بعد پھر ایف بی آر کا پنڈورا بکس کھلے گا، تاجر اور صنعتکار پھر سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور پھر یہی شناختی کارڈ کا رونا رویا جائے گا۔

جہاں تک تاجروں کی جانب سے ٹیکس دینے کا معاملہ ہے تو حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 40لاکھ تاجروں میں سے صرف 4لاکھ افراد ٹیکس ریٹرن جمع کرواتے ہیں۔ ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے حکومت کو بہت سے اقدامات کرنا پڑیں گے مگر یہ عمل صرف اتفاق رائے سے ہونا چاہئے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں تاجر، صنعتکار اور حکومت میں ہمیشہ رابطہ کا فقدان رہا ہے۔

ایسا نظام شروع کیا جائے جو رابطہ کاری کا کام بہتر طور پر انجام دینے میں مدد کرے، نیز تاجروں کو بھی اپنے معاملات پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔

تازہ ترین