• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت عام حالات میں بھی ملک کے بنیادی مسائل پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دیتی تو اس وقت جبکہ سربراہ مملکت وزیراعظم، وزراء اور مشیران کرام، اعلیٰ سرکاری عہدیدار، سیاست دان، پارلیمنٹیرین، اینکرز پرسنز، کالم نگار سب پر انتخاب کی دھن سوار ہے تو تعلیم جیسے روٹین مسئلے پر غور و فکر کرنے کے لئے کس کے پاس وقت ہے۔ البتہ ہمارے محترم چیف جسٹس عدالت عظمیٰ جہاں اور معاملات کی طرف حکومت کو متوجہ کر رہے ہیں وہاں یہ بھی فرمایا کہ ”اب زبردستی اسکولوں پر قبضہ کرنے والوں سے اسکول چھڑائیں اور ان کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ اسکولوں پر قبضہ کرنے والے اور ان کو باڑہ بنانے والے قوم کے بچوں کو اسکولوں سے محروم کر کے ظلم کر رہے ہیں عدالت کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ بھی ہے“۔
نہ صرف دنیا بلکہ خود ہمارے دانشور اور مفکر کہتے ہیں کہ انسانی وسائل کے بغیر نہ تو ملک ترقی کر سکتا اور نہ خوشحالی کی جانب قدم بڑھا سکتا ہے اور انسانی وسائل کی ترقی میں تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان کی پہلی کابینہ قابل تحسین ہے کہ اس نے اپنے قیام کے چار مہینے کے اندر جو آل پاکستان کانفرنس بلائی وہ تعلیم کے متعلق تھی اور جس کیلئے قائداعظم نے تفصیلی پیغام بھیجا جس میں تعلیم کے بنیادی مقاصد، نصاب، جدید علوم خصوصاً سائنس اور ٹیکنالوجی سب کی اہمیت اور ضرورت کا مختصراً تذکرہ کر دیا تھا اگر اس وقت سے اس پر عمل ہوتا تو پتہ نہیں آج کہاں پہنچ چکے ہوتے۔ آج 65سال کے بعد بھی ہم بھٹک رہے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ چینی زبان پرائمری سے شروع کریں گے،کبھی دینی مدارس میں جدید علوم داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں،کبھی اعلیٰ معیاری اسکولوں میں 20فیصدی غریب بچے داخل کرانا چاہتے ہیں جن کی ماہانہ کئی ہزار ہے اور جہاں معیاری تربیت یافتہ اساتذہ20 اور 25ہزار روپے ماہانہ پر ملازم ہیں۔ اسلام آباد میں تو یہ بھی حکم ہوا کہ وہاں ایسے بچوں کا لباس اور وضع قطع بھی خوشحال والدین کے بچوں کی طرح ہوگی۔
یہ بات ذہن میں رہنا چاہئے کہ1951ء میں پہلی مردم شماری ہوئی تھی اس وقت ملک کی آبادی 8کروڑ 37لاکھ تھی ملک میں صرف ایک واحد یونیورسٹی تھی اور خواندگی کا عام اوسط 13فیصد تھی اور ان میں ان حفاظ کو بھی شامل کر لیاگیا تھا جو حفظ قرآن کے حامل تھے۔ آج ملک 18کروڑ سے تجاوز کر چکا ہے۔ الحمدللہ ملک میں 14وفاقی، 58صوبائی اور 58ہی نجی جامعات یا اسناد عطا کرنے والے ادارے موجود ہیں۔ 1998ء میں ملک کی عام خواندگی کا اوسط 43.9 فیصد (مرد 54.8 اور خواتین 32فیصد تھا اور فاٹا کے علاقے میں خواتین کی خواندگی صرف 3فیصد تھی جس رفتار سے خواندگی کی شرح بڑھ رہی ہے وہ آج بھی60فیصدی سے زائد نہیں ہوگی۔ 2009-10ء میں ملک میں پرائمری اسکولوں کی تعداد 157360 تھی اور ان میں ایک کروڑ 17لاکھ بچوں کا داخلہ ہوا تھا جبکہ 5-9سال کے بچوں کی تعداد 2کروڑ 2لاکھ تھی یعنی 85لاکھ بچے اسکولوں میں نہیں تھے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت اس سے زائد بچوں نے اسکول کا منہ نہیں دیکھا تھا۔
یہ مضمون تو میرے ذہن میں تھا شاید مجھے اچھے دنوں کی توقع تھی مگر 15جنوری کو اخبار جنگ میں محترم وائس چانسلر یونیورسٹی آف گجرات کا مضمون ”اعلیٰ تعلیم، متوسط طبقے کے لئے امید کا پیام“ شائع ہوا۔ جس میں موصوف نے یہ بتایا کہ ملک میں متوسط طبقے کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اب یہ ملک کی آبادی کے چالیس فیصد حصے پر مشتمل ہے۔ اس طبقے کے نوجوان اچھی اعلیٰ تعلیم، اچھا روزگار حاصل کرنے اور اچھی زندگی گزارنے کے متمنی ہیں۔ کوئی صاحب فکر انسان ان خیالات کی تائید سے منکر نہیں ہو سکتا کہ وہ جذبہ اور تڑپ رکھنے والے استاد کے دل کی آواز ہیں لیکن ان نوجوانوں کی راہ میں سب سے بڑی چٹان وہ فیس کا نظام ہے جو بیشتر اعلیٰ معیار کی جامعات اور معیاری اداروں میں رائج ہے اور دوسری رکاوٹ اس کے والدین کے مالی وسائل ہیں کہ وہ اپنی اولاد کے لئے اتنا بھاری بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے۔
چند مہینے پہلے ہائر ایجوکیشن آف پاکستان کی جانب سے متواتر دو مرتبہ ایک رہنمائی کرنے والا اشتہار شائع ہوا تھا جو انگریزی اخبار کے ساتھ تقسیم کیا گیا جس کی سرخی تھی کہ ”تم اپنا انٹرمیڈیٹ مکمل کرنے کے بعد کس یونیورسٹی میں جانے کا فیصلہ کرو گے“۔ پہلے صفحے پر پاکستان میں 1 سے 13 تک رینکنگ ہونے والی جامعات اور ادارے ہیں اس میں سرفہرست لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنس ہے جس کے بیچلر پروگرام کی فی سمسٹر فیس2لاکھ 83ہزار اور ایم اے سمسٹر کی فیس تین لاکھ 45ہزار ہے بیچلر کے پروگرام میں 5 اور ایم اے کے پروگرام میں چار کورس ہوں گے۔دوسرے صفحے پر سندھ کے نجی شعبے کی20جامعات دی گئی ہیں یہاں بیچلر کی کم سے کم فیس35ہزار اور زیادہ سے زیادہ 151000روپے اور ایم اے کا 28ہزار اور61ہزار کے درمیان ہے۔ کورس وہی 5 اور 4 ہوں گے۔
تیسرے صفحے پر ریسرچ کی رینکنگ کے لحاظ سے32جامعات اور اداروں کا اندراج ہے اس میں کراچی کی اقراء یونیورسٹی پہلے، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز دوسرے، قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد پانچویں، پشاور یونیورسٹی گیارہویں، پنجاب یونیورسٹی بارہویں، کراچی یونیورسٹی چودہویں اور SZABIST کراچی بیسویں نمبر پر ہے۔ یہاں بی اے سمسٹر کی فیس 7500 پشاور یونیورسٹی سب سے کم ہے اور اسی طرح ایم اے کی فیس 8400 ہے اور بی اے کی بلند فیس ایک لاکھ 13 ہزار اور قائداعظم یونیورسٹی میں ایم اے سمسٹر کی فیس ایک لاکھ 76ہزار ہے۔
آمدنی کے لحاظ سے متوسط طبقے کی کوئی تعریف نہیں۔ محکمہ شماریات نے صارفین کے چار طبقے بنا رکھے ہیں (1) تین ہزار ماہانہ تک (2) 3000 سے 5000 تک (3) 5000 سے 12000 تک اور (4) 12000 سے اوپر۔ اس میں صرف تیسرے طبقے ہی کو متوسط طبقہ کہا جا سکتا ہے اگر یہ خاندان کرائے کے مکان میں رہتا ہے تو اس کے لئے بھی اپنے صرف ایک بچے کو بی اے/ ایم اے کی تعلیم دلانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ مالی وسائل کی تنگی کی بنا پر بہت سے ہونہار اور لائق بچے اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے اپنا دل مسوس کر رہ جاتے ہیں۔ کیا ان اعلیٰ تعلیمی اداروں کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ کم از کم وہ متوسط طبقے کے ذہین بچوں کی دس فیصدی فیس معاف کر دیں یا ایک چوتھائی کر دیں جب تک کوئی ایسا فارمولانا وضع نہیں کیا جائے گا متوسط اور خوشحال طبقے میں یہ تعلیمی خلیج بڑھتی چلی جائے گی۔ طویل عرصے میں اس کے معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی تاثرات خوشگوار نہیں ہوں گے یہ مسئلہ منہ پھیر کر یا ”روٹھ“ کر ٹالا نہیں جا سکتا ہم اس مسئلے کو ٹال کر ان کو ان کے حق سے محروم کر رہے ہیں۔
تازہ ترین