• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر شہر کوئٹہ بدترین دہشت گردی کا نشانہ بنا جس میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 90 کے قریب انسان بے گناہ قتل کئے گئے۔ یوں ملک ایک بار پھر دھرنوں کے سبب نیم مفلوج ہوگیا جن سے ملک کے بڑے شہر بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ بنیادی طور پر پاکستان میں بسنے والے انسانوں کی ترتیب انتہائی مشکل ہے لیکن خوبصورتی کی بات یہ تھی کہ اس کی اقلیتیں بھی قومی دھارے کا حصہ تھیں لیکن ماضی قریب کے واقعات نے اس ترتیب کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہزارہ برادری پر حملوں کو بعض عناصر شاید قومی وحدت پر حملہ تصور نہیں کر رہے اور خاموشی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ اگر ہم حقیقت پر غور کریں تو اس قسم کے واقعات ہماری قومی وحدت کیلئے انتہائی خطرناک ہیں۔ اگر ان کا تدارک نہ کیا گیا تو یہ ناقابل تلافی نقصان کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ کراچی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر ملک کے مختلف حصوں سے آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں اور شہر قائد کو فوج کے حوالے کرنے کے بیانات کی باز گشت شدت سے سنائی دیتی رہی ہے، مگر اس قسم کی آوازیں اٹھانے والے شہر کوئٹہ میں سو، سو کے لگ بھگ شہریوں کے قتل کے واقعات پر بھی یہ مطالبہ کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔
اس انتہائی نازک مرحلے پر پاکستان کی پوری سیاسی قیادت کو اس بات کی کوشش کرنی ہے کہ پاکستان کی نسلی، مذہبی اور مسلکی اقلیتیں قومی وحدت میں جڑی رہیں۔ ملک میں انتخابات قریب ہیں مگر امن و امان کی صورتحال کسی اور ہی منزل کا پتہ دے رہی ہے لہٰذا جتنی جلد ممکن ہو سکے، بے یقینی کی اس صورتحال سے قوم کو نکالا جائے۔ اس ضمن میں نوازشریف، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، صدر آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن، الطاف حسین، اسفند یار ولی سمیت قومی رہنماؤں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ہر طبقہ آبادی میں احساس تحفظ پیدا کرنے کے لئے عملی جدوجہد کریں،جو اقدامات حکومت نے اٹھانا ہیں، وہ جلد از جلد اختیار کئے جائیں۔ اگر فوج کے استعمال سے صورتحال بہتر ہو سکتی ہے تو اب وہ حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ ہم معاملات فوج کے سپرد کرکے عوام کے تحفظ کی بنیادی ذمہ داری کو پورا کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ عوام کے جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن جب ملک کو جنگ جیسے حالات کا سامنا ہو اور ایک عالمی سازش پاکستان کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا چاہتی ہو تو تمام سیاسی و سماجی اکائیوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہو کر عوام کے جان و مال کے تحفظ کی بنیادی ذمہ داری کو پورا کریں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ ہم مسلکی، مذہبی، نسلی اور لسانی تفریق سے باہر نکل کر ایک پاکستانی کی حیثیت سے سوچیں اور اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش کریں۔

بدقسمتی سے پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دی گئی ہے تو پورے ملک میں ہزارہ برادری کی نسل کشی پر آوازِ احتجاج بلند ہو رہی تھی تو کراچی میں ایک کالعدم تنظیم کے مبینہ کارکنان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین ہونے والی جھڑپ نے صورتحال کو تکلیف دہ بنا دیا۔ اس میں بھی کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ کوئٹہ، کراچی، پشاور ، لاہور اور ملک کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں ہونے والے دھرنے بھی صورتحال کو خراب کر سکتے ہیں کیونکہ وہ عناصر جو دہشت گردی کی مذموم کارروائیوں میں ملوث ہیں، وہ ان دھرنوں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایک نہ نظر آنے والی قوت حرکت میں آتی ہے اور پورے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ نوٹ کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ قوت کسی دوسرے سوئچ کو آن کرتی ہے تو ملک میں لسانی اور نسلی تعصب کو ہوا ملتی ہے ۔اسی طرح اس ملک کو سیاسی رسہ کشی بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔ کبھی بھٹو ازم کے مقابلے پر ضیاء الحق کے اسلام کے حامی لائے جاتے ہیں تو کبھی مذہبی قوتوں کو سیاسی قوتوں کے مدمقابل لایا جاتا ہے۔
پاکستان کا معاشرہ انتہائی مشکل سائنس بنتا جارہا ہے اور عمرانیات کا طالب علم یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اس مملکت میں بسنے والے عوام کو کن بنیادوں پر ایک قوم کی شکل دی جا سکتی ہے۔ اس پر اگر غور کیا جائے تو نتیجہ ہمارے سامنے واضح ہے کہ کثیر النسل، کثیر اللسان، کثیر المذہب، کثیر المسلک و فرقہ ہونا وہ معاملہ ہے جو کسی بھی گروہِ انسانی کو ایک لڑی میں نہیں پرو سکتے۔ اب اگر کوئی طاقت ہے جو پاکستان میں بسنے والے گروہِ انسانی کو ایک قوم کی شکل دے سکتی ہے تو وہ صرف مشترکہ مالی و معاشی مفادات ہیں جن کی تقسیم ایک منصفانہ نظام حکومت کے ذریعے ہو لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے اندر وسیع تر اصلاحات کر کے ایسا نظام وضع کیاجائے جو ان تمام اکائیوں کو ہر اعتبار سے مطمئن کر سکے۔ اس جدید دور میں بحث و تمحیص کے ذریعے ہم ایسا نظام وضع کر سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ہمیں اپنی نیتوں کو صاف کرنا ہوگا اور پاکستان کی سیاسی قیادت کو مسلک و مذہب سمیت کسی بھی اختلافی شناخت سے اپنے آپ کو علیحدہ کر کے پاکستانی بنانا ہوگا اور قائداعظم سمیت بانیان پاکستان کے خواب کے مطابق پاکستان کی ازسرنو تشکیل کرنا ہوگی۔ یہ بات بھی عوام کے مشاہدے میں ہے کہ جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے ملک میں ہونے والے خودکش دھماکوں کے بارے میں جو کہ پنجاب میں بھی ہو رہے تھے، یہ بیان جاری کیا کہ ہم مرکزی حکومت کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پالیسی کے حامی نہیں ہیں تو اس کے بعد سے صوبہ پنجاب میں خودکش دھماکوں سمیت دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی محسوس کی گئی۔ اگر یہ ایک اتفاق تھا تو بہت خوبصورت اتفاق تھا اور اگر یہ بیان کسی رابطے کا نتیجہ تھا تو مسلم لیگ کی قیادت کو چاہئے کہ پورے ملک کی سطح پر فوری اس مقصد کے لئے ایسے رابطوں کو استعمال کر کے انتہا پسند قوتوں کو قانون کے آگے ہتھیار ڈالنے پر رضامند کرے کیونکہ ان کی جنگ بنیادی طور پر امریکہ یا مغرب کے خلاف نہیں بلکہ وہ مغربی طاقتوں کے خلاف اشتعال میں آکر پاکستان کو ہی نقصان پہنچا رہی ہیں۔
تازہ ترین