• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوسروں کو اپنے اشاروں پر نچانا انسان کی دیرینہ خواہش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے گھوڑے، گدھے، اونٹ، کتے اور دیگر جانور پالنا شروع کئے یہاں تک کہ شیر جیسے وحشی اور خونخوار جانور کو سدھا لیا گیا مگر یہ سب جاندار جذبات واحساسات کے باعث کہیں نہ کہیں حکم عدولی کے مرتکب ہو جاتے ہیں چنانچہ انسان ان پر انحصار کرنے کے بجائے جی حضوری کی غرض سے کوئی نئی مخلوق پید اکرنے کا سوچنے لگا۔ 

مشینی دور کا آغاز ہوا تو اس نہج پرکام ہونے لگا کہ ایسی خودکار مشینیں تیار کی جائیں جن میں ایک بار کوئی پروگرام فیڈ کر دیا جائے تو وہ کوئی غلطی یا وقفہ کئے بغیر کام کرتی رہیں۔ ایسی خودکار مشینوں کے لئے ’’روبوٹ‘‘ کی اصطلاح تو پہلی بار بیسویں صدی میں جمہوریہ چیک کے ایک مصنف نے اپنے ڈرامے میں استعمال کی مگر اس مہم جوئی کا آغاز بہت پہلے ہو چکا تھا۔ 

قدیم یونان میں اس حوالے سے جو کوشش کی گئی، اسے روبوٹ سازی کے ابتدائی منصوبوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ ایک یونانی سائنسدان نے مشینی کبوتر بنایا۔ روم کی سلطنت سے جو باقیات برآمد ہوئیں ان میں بھی میکینکل روبوٹس کے آثار ملتے ہیں۔ 

13ویں صدی کے مسلمان سائنسدان الجزری نے بھی اس کام کو آگے بڑھایا اورخودکار مور بنایا۔ اس کے علاوہ فلش سسٹم اور خودکار دروازوں کا ابتدائی خیال بھی اسی نے پیش کیا۔ 

15ویں صدی میں لیونارڈوڈاونچی نے اس تحقیق کا رخ مصنوعی سپاہی بنانے کی طرف موڑدیا۔

آج انسان روبوٹ سازی میں جس قدر پیشرفت کرچکا ہے اس کے پیش نظرہم بہت وثوق سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک نئے انقلاب کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ 

جاپان کے ایک 400 سال پرانے بودھ مندر میں راہب کی جگہ ’’ایمان‘‘ نامی روبوٹ لے چکے ہیں۔ روسی خلائی ایجنسی چند ماہ قبل ’’فیدو‘‘ نامی روبوٹ کو بطور خلاباز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر بھیج چکی ہے۔ چین میں کئی روبوٹ اینکر ٹی وی پر خبریں پڑھتے ہیں تو انسان اور روبوٹ میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ انڈسٹریل روبوٹ صنعتوں، کارخانوں اور فیکٹریوں میں انسانوں کی جگہ لے چکے ہیں۔ ایجوکیشنل روبوٹ تعلیمی اداروں میں معلم کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ 

اسپتالوں میں مریضوں کی نگہداشت کے لئے روبوٹوں پر مشتمل نرسنگ اسٹاف تعینات کیا جا رہا ہے۔ جنگ کی صورت میں فوجی روبوٹس کو لڑنے کی ٹریننگ دی جاچکی ہے اور ہر وہ کام جو آپ سوچ سکتے ہیں، روبوٹ سے لیا جا سکتا ہے۔ 

صوفیہ نامی روبوٹ کو چند برس قبل سعودی عرب نے اپنے ملک کی شہریت دی تھی کیونکہ یہ دنیا کا جدیدترین روبوٹ ہے۔ مصنوعی ذہانت کی حامل صوفیہ انسانوں کی طرح جذبات و احساسات کی حامل ہے، اس سے آپ دنیا کی ہر زبان میں بات کر سکتے ہیں۔

روبوٹس کے بڑھتے ہوئے عمل دخل کے پیش نظر ہالی وڈ ہی نہیں بالی وڈ میں بھی سائنس فکشن پر مبنی بیشمار فلمیں بنیں جن میں رجنی کانت کی ’’روبوٹ‘‘سب سے نمایاں ہے۔ 

فوج میں بھرتی کرنے کے لئے ’’چٹی‘‘نامی ایک روبوٹ تیار کیاجاتا ہے جسے چنائی میں ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران ٹرائل کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ روبوٹ تیار کرنے والے سائنسدان کے گُرو کی نیت خراب ہو جاتی ہے کیونکہ وہ دہشتگردوں کیلئے اسی طرز کا روبوٹ تیار کرنے کا سوچ رہا ہے مگر اس مقصد میں ناکام رہتا ہے۔ ’’چٹی‘‘کو اس کانفرنس میں فیل کردیا جاتا ہے اور پھر وہی گرو اسے چرالے جاتا ہے۔ ’’چٹی‘‘بغاوت پر اترتا ہے اور اپنی روبوٹ فورس تیار کرکے پورے شہر پر دھاوا بول دیتا ہے۔ 

اسی طرح شاہ رخ خان کی فلم ’’راون‘‘میںگیمز پروگرام کرنے والے شرماایک ایسی ٹیکنالوجی متعارف کرواتے ہیں جس کے ذریعے ڈیجیٹل دنیا کے کردار حقیقی دنیا میں داخل ہو سکتے ہیں۔ وہ دو گیمنگ کردار ’’جی ون‘‘اور ’’راون‘‘تخلیق کرتے ہیں اور انہیں مصنوعی ذہانت سے لیس کر دیا جاتا ہے مگر یہ کردار بغاوت پر اتر آتے ہیں اورخوب اودھم مچا تے ہیں۔

روبوٹس کے بڑھتے ہوئے استعمال کے پیش نظر ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ کہیں یہ خودکار روبوٹ دنیا بھر کے انسانوں کو بیروزگار نہ کر دیں۔ 

اسی طرح سائنس فکشن پر یقین رکھنے والے ان اندیشہ ہائے دور دراز میں بھی مبتلا ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال سے بنائے گئے روبوٹ کہیں اس قدر طاقتور اور بااختیار نہ ہو جائیں کہ اپنے بنانے والوں کیخلاف ہی بغاوت کردیں ایسی صورت میں انسان کے لئے روبوٹ کا مقابلہ کرنا ناممکن ہوگا اور یہ روبوٹ پوری دنیا کو باآسانی یرغمال بنا سکتے ہیں۔

یوں تو پاکستان ہر شعبے اور ہر میدان میں سائنس و ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بہت پیچھے ہے مگر روبوٹ بنانے اور انہیں اپنے اشاروں پر نچانے کے حوالے سے ہمارے ہاں ناقابل یقین ترقی ہوئی ہے۔ 

کبھی ہمارے ہاں بھی روبوٹ کا محض اتنا استعمال ہوتا تھا کہ کسان کسی لکڑی کو قمیص پہنا کر پتلے کی شکل میں گاڑ دیا کرتے تھے تاکہ پرندے یہی سمجھیں کہ کسان اپنے کھیت کی حفاظت کیلئے چوکس کھڑا ہے لیکن اب تو ہر شعبہ ہائے زندگی میں روبوٹ کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں اور یہ طے کرنا دشوار ہوگیا کہ کون انسان ہے اور کون روبوٹ۔ 

عمومی تجربہ تو یہی ہے کہ روبوٹ میں کتنا ہی اچھا پروگرام فیڈ کیوں نہ کردیا جائے، کچھ عرصہ بعد اس میں جان پڑ جاتی ہے اور یہ بغاوت پر اتر آتا ہے۔ جب ہمیں معلوم ہے کہ کسی بھی روبوٹ میں پروگرمنگ فیڈ کرکے اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا اور جب کوئی روبوٹ آپے سے باہر ہوتا ہے تو بہت تباہی مچاتا ہے، جب ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی روبوٹ ہمیشہ روبوٹ نہیں رہتا، تو ہم روبوٹ بناتے ہی کیوں ہیں؟

تازہ ترین