• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی کرتار پور، گورداسپور کا حصہ تھا تقسیم کے وقت جہاں پنجاب تقسیم ہوا وہیں گورداسپور بھی تقسیم ہو گیا۔ بھارت اور پاکستان کے مابین پنجاب واحد صوبہ ہے جو تقسیم ہوا اور شاید گورداسپور واحد ضلع ہے جس کی تقسیم ہوئی۔ 

بھارت کو کشمیر سے ملانے والا ضلع گورداسپور بہت زرخیز ہے۔ یہ ضلع دریائے راوی اور دریائے بیاس کے درمیان ہے۔ یہ دونوں دریا ہماچل پردیش سے نکلتے ہیں۔ بیاس بھارت میں بہتا ہے اور فیروزپور کے پاس آکر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ فیروز پور میں باکھڑا کے مقام پر انڈیا نے اس دریا پر بڑا ڈیم بنا رکھا ہے۔ دریائے راوی جموں و کشمیر کی حدوں کو چھوتا ہوا تحصیل پٹھانکوٹ کے گائوں مادھو پور سے ذرا آگے جاکر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ 

مادھوپور میں بھی بھارت نے دریائے راوی پر بڑا ڈیم بنا رکھا ہے۔ یہی وہ پانی کا کھیل ہے جسے مودی کھلواڑ بنانا چاہتا ہے۔ راوی کے کنارے دربار صاحب کرتار پور ہے۔ میں نے اپنے بچپن میں کئی گائوں اس دریا کی نذر ہوتے دیکھے، یہ دریا کئی آبادیوں کو نگل گیا، پانی کی بپھری ہوئی لہروں نےگھر گرا دیے اور بارڈر تک بیلا بنا دیا۔ اب دریائے راوی سے انڈین بارڈر تک ویرانی ہے۔ 

کرتارپور سے تین کلومیٹر دور بھارتی علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ کرتارپور کے قریب سے گزرنے والا دریائے راوی فتح پور جوڑیاں کے مقام پر پھر بھارت میں داخل ہو جاتا ہے۔ نارووال سے لاہور تک دریائے راوی کبھی پاکستان میں تو کبھی بھارت میں بہتا ہے پھر لاہور کے قریب آکے مستقل طور پر پاکستان میں داخل ہو جاتا ہے۔ 

کشمیر سے آنے والے دو نالوں کا شفاف پانی کرتارپور کے پاس دریائے راوی میں شامل ہو جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے اضلاع سامبا اور کٹھوعہ سے آنے والے بئیں اور بسنتر ایک کرتارپور کے مشرق سے راوی میں گرتا ہے تو دوسرا مغرب سے۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے یہ خطہ بڑا اہم تھا، اس کی ہریالی مثالی تھی، کشمیر سے امرتسر، دہلی اور لاہور جانے والے اسی سرزمین کے نظاروں کو نگاہوں کا حصہ بنا کر جاتے تھے۔ 

کرتارپور کے بالکل سامنے ڈیرہ بابا نانک ہے جہاں مشہور گوردوارہ ہے۔ کرتارپور کے بالکل سامنے تو ڈیرہ بابا نانک ہے مگر ڈیرہ بابا نانک کے آس پاس ہی تو کلانور، دھاریوال، بٹالہ اور پھر بڑا شہر گورداسپور ہے۔ کلانور وہ قصبہ ہے جہاں مغل بادشاہ اکبر کی تاج پوشی ہوئی تھی۔ کلانور میں میرے دادا کا ننھیال تھا، اس کے پاس دھاریوال ایک قصبہ تھا۔ 

دھاریوال میں 1880میں وولن مل بنی، اس وقت پورے برصغیر میں کہیں ایسی وولن مل نہیں تھی۔ نہ کلکتہ، نہ کراچی اور نہ ہی فیصل آباد میں ملیں تھیں۔ بٹالہ اس وقت بھی آئرن سٹی تھا، بٹالہ آج بھی آئرن سٹی ہے یہاں لوہے کی چیزیں بنتی ہیں یہاں اُس وقت لوہے کا کاروبار تھا جب پورے برصغیر میں نہیں تھا۔

تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان اور بھارت دونوں نے اس علاقے کو نظر انداز کیا۔ یہ علاقہ ستر برس نظر انداز رہا، بھارت نے سڑک کی حد تک توجہ دی کیونکہ کشمیر سے بھارت کو ملانے والا واحد راستہ گورداسپور ہی سے تو گزرتا ہے مگر یہ سچ ہے کہ سونا اگلنے والا یہ علاقہ طویل عرصے تک نظر انداز ہوا۔

2002 سے 2007 تک چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے، انہوں نے کرتارپور تک سڑک بنوائی، انہوں نے ہماری مرتی ہوئی زبان پنجابی پر توجہ دی۔ اب جب عمران خان کی حکومت آئی تو اس نے اس پورے کام میں جان ڈال دی۔ کرتارپور راہداری قائم ہو گئی۔ 

بیالیس ایکڑ پر مشتمل گوردوارے کا کمپلکس بن گیا، کشادہ سڑکیں بن گئیں، ہمارے مذہبی امور کے وزیر پیر نور الحق قادری اور گورنر پنجاب چوہدری سرور نے بھی پوری توجہ دی۔ 

عمران گوندل نے ہر لمحہ سرکاری ذمہ داری سے ہٹ کر اسے پاکستان کی خدمت سمجھ کر ادا کیا۔ اب پوری دنیا کے سکھ خوش ہیں، پاکستان کو دعائیں دیتے ہیں، عمران خان کو بھی دعائیں دیتے ہیں۔ آج سدھو بھی خوش، سمرٹ کور بھی خوش، اپنے جسدیپ سنگھ اور ڈاکٹر سوریندر سنگھ گل بھی خوش، میں تو اس لئے خوش ہوں کہ ہماری زمینداری کرتارپور ہی میں تو تھی، ہماری کاشت کاری کا عروج اسی خطے میں تھا۔ 

میرے پردادا کے دو ہی تو جگری دوست تھے، ایک پیر جماعت علی شاہ اور دوسرے سکھ ذیلدار سردار مولا سنگھ، میرے دادا کی دوستی بھشن سنگھ سے تھی، میری اپنی دوستی جسی سنگھ سے ہے، ہماری سکھوں کے ساتھ نسلوں سے دوستیاں ہیں۔ 

اب جب دنیا بھر میں کشمیر خالصتان فرنٹ بنتے ہیں تو خوشی ہوتی ہے۔ امریکہ میں سکھوں کے ساتھ مل کر دخترِ کشمیر غزالہ حبیب نے کشمیر خالصتان فرنٹ بنا رکھا ہے۔

9نومبر کو کرتارپور میں ایک تاریخی تقریب ہونے جا رہی ہے۔ عمران خان پہلے سکھ جتھے کا استقبال کریں گے۔ نئے دربار صاحب کرتارپور کمپلکس کا افتتاح کریں گے۔ ہمارے کئی سکھ دوست اس میں شریک ہوں گے، اس افتتاحی تقریب کے پیچھے سدھو اور آرمی چیف جنرل باجوہ کی یادگار جپھی بھی ہے۔ جنرل باجوہ نے اس کام میں ذاتی دلچسپی لی۔ 

اب تو پاکستان نے سکھوں کیلئے پاسپورٹ کی شرط بھی ختم کر دی ہے، دس روز قبل رجسٹریشن کا مشکل مرحلہ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ اب سکھ روزانہ اس مقام کو دیکھا کریں گے جہاں گورو نانک نے زندگی کے آخری اٹھارہ برس بسر کئے۔ 

پاکستان اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرنے والی ریاست کا نام ہے۔ اسی لئے آج دربار صاحب کرتار پور اپنی شاندار عمارت کے ساتھ سکھوں کا منتظر ہے، 9 نومبر کو آپ سب آئیے، کرتار پور آپ کا انتظار کر رہا ہے۔ کرتار پور کے قریبی گائوں قیام پور کے مشہور پنجابی شاعر افضل احسن رندھاوا کی پنجابی شاعری یاد آ رہی ہے کہ

توں میرے ساہ دی واشنا

توں میری گل دا مان

تازہ ترین