• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھ میں ویسے تو بہت سی خراب عادتیں ہیں۔ مگر ایک راسخ ہے کہ میں دنیا بھر کے اخبارات جس میں انڈیا کے اخبار بھی شامل ہیں، پڑھتی ہوں۔ 

گزشتہ ہفتے، مہاتما گاندھی کی 150سالہ سالگرہ تھی۔ سارے عالمی اخبارات نے ان کی سیاسی جدوجہد کا تذکرہ کیا کہ ایک وکیل نے ایک دھرتی کا سربراہ بننے پر کیوں اصرار کیا اور انہوں نے اپنا آخری مرن بھرت، مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف رکھا تھا۔ 

مگر موجودہ انڈیا کی حکومت نے ان کو بے بھائو کی سنائی ہیں۔ ستم بالائے ستم انہوں نے گاندھی جی کو گولی مارنے والے نتھو رام گوڈسے کی تعریف میں قلابے ملائے ہیں جبکہ گاندھی نے اپنی آخری تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ مسلمانوں کو مار مار کے جب تھک جائو گے تو کیا ہندوئوں کو بھی مار ڈالو گے! 

کاش آج گاندھی زندہ ہوتے تو کشمیر کے لاک ڈائون پر بھوک ہڑتال کرتے۔ انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ بلند کیا۔ جس پر مجاز نے نظم لکھی۔ 

پاکستان کے سارے چینل جو خواتین کا ستیاناس کر رہے ہیں، اس کے مقابلے میں ڈیرہ اسماعیل خان میں ماسٹرز کرنے والی سات سہیلیوں نے عملی صحافت کا آغاز اپنا ویب پیج بنا کر کیا۔ 

خیبر پختونخوا کی پہلی بیورو چیف خاتون صحافی ہے۔ یہ لڑکیاں اپنے علاقے میں خواتین کیلئے مروجہ قدامت پسندانہ اقدامات کو چیلنج کر رہی ہیں۔ ان کے ویب پیج کا نام لیڈی ٹی وی ہے۔ ان تمام لڑکیوں نے خاندان اور معاشرے کے ان اعتراضات کو بھی رد کیا کہ لوگ کیا کہیں گے اور پھر ایسے کام کرو گی تو رشتے نہیں آئیں گے۔

لیڈی ٹی وی چینل نے خواجہ سرائوں، بیوائوں اور کچی آبادیوں پر ڈاکومنٹری بنانے پر لوگوں سے بہت داد وصول کی ہے۔ نادیہ نذیر، ڈیرے کی پہلی باقاعدہ صحافی ہیں۔ میری یہ ساری بچیاں برقع پہن کر کیمرہ ہاتھ میں لئے فوٹو گرافی کرتی، رپورٹنگ کرتی اور ایڈیٹنگ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ 

مجھے فخر ہے کہ اس طرح بہت سے دوسرے صحافیوں نےبھی اپنے ویب پیج بنائے ہوئے ہیں۔

آج سے 20برس پہلے شہلا ہائری نے خواتین اور متعہ کی شادیوں کے حوالے سے تفصیل سے بیان کر دیا تھا۔ ہم نے پڑھا جیسے بہت کچھ پڑھتے ہیں۔ 

مگر گزشتہ ہفتے سے خواتین نےجو جلوس اور مظاہرے شروع کئے ہیں، اُس حوالے سے اسلامی دنیا کو سوچنا پڑے گا۔ ہم مغرب کو کیا کہہ سکتے ہیں۔ ویسے بھی کشمیر میں بھی جوان لڑکیوں کا جو حشر کیا جا رہا ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ 

مگر لاجواب تو سعودی عرب ہے، ابھی کچھ عرصے پہلے تک محرم کے بغیر مسلمان عورتوں کا حج کرنا ناممکن تھا اور اب حکم ہوا ہے کہ غیر ملکی غیر شادی شدہ جوڑے ایک کمرے میں ٹھہر سکتے ہیں۔ ویسے اگر یہی بات ہماری پولیس کو بھی سمجھ آ جائے اور ہمارے والدین جو غیرت کے نام پر ہمارے بچوں کو قتل کر کے خوش رہتے ہیں شاید ان کے اندر اس ’’نامعلوم غیرت‘‘ کے علاوہ انسانیت بھی جاگ جائے۔

شاید انڈین میڈیا بھی حقیقی صورت حال پر گفتگو شروع کر سکے، شاید یاد آجائے کہ 1919ء میں جلیانوالہ باغ کا سانحہ ہوا تھا۔ وہ تو نامراد انگریز نے کیا تھا۔ اب 2019ء سو سال بعد، ایسے ہی مظالم کشمیر میں ہو رہے ہیں۔

اب تین یا چار سال ہو گئے کہ چینی ہمارے ہر شہر میں گھومتے نظر آتے ہیں اور اب تو ان کی طرح ہم نے بھی مینڈک کے تکے کھانے شروع کر دیئے ہیں۔ یہ بالکل اس طرح ہے کہ ایک پاکستانی جہاز میں بے تحاشہ گلاس پہ گلاس انڈیل رہے تھے۔ کھانے کے وقت انہوں نے کہا ’’میں مسلمان ہوں، سؤر نہیں کھاتا‘‘۔ 

ہم اب گدھے کے پائے، گدھے کا گوشت اور مینڈک کے تکے، بڑے آرام سے لکشمی چوک میں کھا سکتے ہیں۔ رہا سی پیک کا مسئلہ تو تین سال سے کرو چین، پاک دوستی اور سی پیک کے نعرےچل رہے تھے۔ میں گوادر گئی سی پیک ڈھونڈنے، مجھے وہاں سوائے کھارے پانی کے اور کچھ نہ ملا۔ باقی جگہ ریت تھی۔ 

آج تین سال بعد سی پیک اتھارٹی بنائی گئی ہے۔ وہ بھی آرڈیننس کے ذریعہ، تو پھر یہ تین سال سے کیا ہو رہا تھا۔ اب تو اسٹیل مل بھی چین چلائے گا۔ 

حالانکہ پچھلے برس سے روس، جس نے اسٹیل مل بھٹو صاحب کے زمانے میں لگائی تھی، ہماری نالائقی پر پردے ڈالنے کے لئے بار بار کہہ رہا تھا لائو مجھے دو، میں اسٹیل مل چلا کے دکھائوں۔

دراصل ہمیں کسی خضر کی ضرورت ہے جو ہمارے ساتھ چلے، ہماری ٹیڑھی ہوئی حکومت کو ایک ہاتھ سے سیدھا کر دے اور سار ے ملک میں اتنے لنگر کھلیں کہ من و سلویٰ کی ضرورت ہی نہ رہے۔ مگر مدینہ کی ریاست میں نہ لنگر تھے اور نہ من و سلویٰ۔ 

پھر یہاں خضر آئے بھی تو کیا کریں گے۔ انہیں رہنے دو جہاں رہیں۔ ہمیں تو اس مینڈک کے چرسی تکے کھانے ہیں۔ ویسے کسی دن اسلام آباد آنا ہو تو ہر سڑک پہ ٹوپی اور اونچے پاجامے واک کر رہے ہوتے ہیں، پہلے یہ واک افسر کیا کرتے تھے۔

تازہ ترین