• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افسوس تعلیم وصحت وہ دو میدان ہیں جو کبھی بھی کسی حکومت کی ترجیح نہ رہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ دونوں ہی شعبہ بہت پسماندہ ہیں۔ حالانکہ ملکوں کی ترقی کے معیار کو جانچنے کا پیمانہ( (HDI human Development Index میں صرف تین ہی پیمانے لیے جاتے ہیں۔ جن میں سے دو تو تعلیم اور صحت ہیں۔ ایسے میں ہمارے ہاں عوامی معیارزندگی کیسے بلند ہوسکتا ہے؟ حکومت ہرسال بجٹ میں قومی آمدنی کا دو فیصد تعلیم اور ایک فیصدصحت پر خرچ کرتی ہے او97 فیصد دوسرے معاملات پہ۔ ایسے میں ترقی کی رفتار میں بہتری کیسے ممکن ہے؟ جب ملک میں خالص شرح خواندگی بہت کم ہو، علاج معالجے کی بضرورت سہولیات میسر نہ ہو، صفائی کا نظام ناقص ہونے کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی زیادہ ہو اور عوام مختلف مہلک بیماریوں کا شکار ہوںتو ملک کی معیشت کا پہیہ کون چلائے گا؟ اوپر سے طرفہ تماشہ یہ کہ ہر سیاستدان ہی بیمار ہویعنی عوام اور رہنمادونوں ہی بیمار ہوں تو حالات میں بہتری کیونکر ممکن ہو؟ عوامی بیماری خون کی کمی(خاص طور پر عورتوں میں)، ٹی بی، ملیریا، ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس( اے، بی، سی اور ای) گردن توڑ بخار، وٹامن ڈی کی کمی سے ہونے والی بیماریاں، پیچیش، اسہال(ہیضہ)، دمہ ، الرجی، (Gastro enteritis) ، تپ دق، مختلف اعضاکا سرطان، نمونیا وغیرہ وغیرہ جن کی وجوہات مناسب خوراک کی کمی، ماحولیاتی آلودگی (جیسے کچروں کا ڈھیر، ان کا جلانا، گندہ پانی، ناقص نکاسی آب، فیکٹری کا دھواں، جنریٹر اور گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ ، رئیل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ کے نام پر درختوں کی کٹائی اور پھر درجہ حرارت بڑھنے پر ایئرکنڈیشنزکا جابجااستعمال )،پان، گٹکا، سگریٹ کے بے تحاشہ استعمال سے منہ، گلے، معدہ، پھیپھڑے ، آنتوں اور مثانے کے کینسرکے امکانات ہوتے ہیں اور یہ سب بیماریاں ہمارے ہاں بہت زیادہ ہورہی ہیں۔ اگر تعلیمی نظام کو فقط نمبروں کے حصول سے نکال کر معیار اورعقل وشعور بیدار کرنے کے لیے وقف کردیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ ان بیماریوں کو کنٹرول کیا جاسکے گا۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں " تعلیم برائے منافع" ہے۔ لہذا تربیت، عقل وشعور، Civic senseکی فراہمی ان تعلیمی اداروں کی ذمہ داری نہیں۔ لہذا ماحولیاتی آلودگی کم کیسے ہوگی؟ دوسری طرف ہسپتال اور صحت کی فراہمی کے ادارے بھی جراثیم سے بچاؤ کے طریقے استعمال نہیں کرتے۔ مثلاً ڈینٹسٹ آلات کی صفائی کا خاص خیال نہیں رکھتے یوں ہیپاٹائٹس ڈی بڑھتاچلاجارہا ہے۔ اسی طرح انتقال خون، استعمال کی ہوئی سرنجوں اور ڈریپوں کا دوبارہ استعمال خوفناک نتائج لیکر آتا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ صحت وتعلیم سے متعلق اداروں معاف کیجئے گا وزارتوں کو متحرک کیا جائے۔ ان کے عملے کے افراد صرف لوگو ں کے کاروبار بڑھانے میں مدد گارثابت نہ ہوں بلکہ عوام دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے ان اداروں پہ شیر کی نظررکھیں اور ہر طرح کی عوام دشمن سرگرمیوں کو کچلنے کی کوشش کریں۔ کیا گٹکے، پان، سگریٹ کی درآمد پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی؟جن پر زرمبادلہ کا ایک بڑاحصہ خرچ کردیا جاتا ہے اور حاصل مختلف اعضا کا کینسر۔ پولیو کے علاوہ دوسری بیماریوں کے لیے بھی اتنی ہی تگ ودوکرلیں توزیادہ بہتر نتائج آئیں گے۔ مگر یہ کرے گا کون؟

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین