• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماں کائنات کا سب سے سچا اور مضبوط رشتہ ہے جو ہمارے وجود کی سب سے بڑی شہادت ہے۔ جس کی زبان سے ادا ہونے والے لفظ معجزاتی تاثیر کے حامل اور جس کا وجود دھرتی کی طرح مقدس، جس کی گود ناقابلِ تسخیر قلعہ، جس کا احساس گھنی چھاؤں والے درختوں کی مانند، جس کے جذبے دریاؤں کی طرح ہر وقت رواں دواں ہیں۔ اس دھرتی کے سارے کرم ماں کی ممتا کی طرح ہیں۔ شاید اسی لئے دھرتی کو بھی ماں کا درجہ دیا جاتا ہے اور دھرتی کی بولی کو ماں بولی کہا جاتا ہے۔ زبان اور دھرتی کے رشتے کی اہمیت کو سمجھنے اور برتنے والے ہمیشہ ماں بولی کا پرچار کرتے رہے ہیں کیونکہ مادری زبان سے مراد صرف ماں کی بولی ہی نہیں بلکہ دھرتی کی زبان اور جملہ امتیازات بھی ہوتے ہیں۔ ہر علاقے کی دھرتی کچھ مخصوص اوصاف کی مالک ہوتی ہے جن کی جھلک اس دھرتی پر بسنے والوں کی شخصیت اور مزاج میں واضح نظر آتی ہے۔ میدانوں، پہاڑوں دریاؤں اور صحراؤں کے باسیوں کا مزاج اپنی دھرتی کی مٹی کے مزاج اور تاثیر سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دانشوروں، صوفیوں، عالموں اور ولیوں نے جس دھرتی پر بسیرا کیا وہاں اپنی زبان لاگو کرنے کی بجائے وہاں کی لوکائی کی زبان کو اہمیت دی اور اسے ہی ذریعہ اظہار بنایا تاکہ عام لوگ ان کی بات سمجھ سکیں اور وہ بھی دھرتی سے جڑی دانش اور ورثے سے متعارف ہوسکیں۔
ضرور ہے کہ کوئی زبان کم تر یا برتر نہیں ہوتی مگر مادری زبان، دھرتی کی آب و ہوا اور بود و باش سے جڑی ہونے کے باعث تہذیب و تمدن، اخلاقی اقدار، لوک دانش اور مشترک ورثے کی حامل ہوتی ہے لہٰذا جب کسی سے اس کی مادری زبان چھین لی جاتی ہے تو اُسے صرف گونگا نہیں بنایا جاتا بلکہ اُس کو ہزاروں سال کے ورثے اور تہذیب و تمدن سے بھی کاٹ دیا جاتا ہے کیوں کہ ہر زبان اپنے اندر لفظوں، محاوروں، ضرب الامثال اور حکمت کا منفرد ذخیرہ محفوظ کرتی ہے جس کے معنی اور مفہوم اُسی ماحول اور سیاق و سباق میں تفہیم و تعبیر کئے جاسکتے ہیں۔ دراصل مادری زبان محبت کی ایک ایسی ٹکسال ہوتی ہے جس کیلئے شعور اور ذہن کو لفظ گھڑنے کی مشقت نہیں کرنی پڑتی۔ اس میں الفاظ آبشار کی طرح دل سے نکلتے اور روح پر اثر کرتے ہیں۔ بلاشبہ ہر مادری زبان کے ذخیرے میں بے شمار الفاظ اور محاورے ایسے ہوتے ہیں جن میں اپنائیت اور خلوص شہد کی طرح رچے بسے ہوتے ہیں اور بولنے، سننے اور پڑھنے والوں کی سوچ، فکر اور جذبوں میں گھل مل جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہر بچے کا اپنی مادری زبان میں اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کرنا بنیادی حق ہے۔ بچہ اپنی مادری زبان میں علم حاصل کرتے ہوئے رٹّے اور مصنوعی پن سے بچ جاتا ہے کیوں کہ وہ اشیاء کی تصاویر اور اشکال سے واقف ہوتا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ ”بُوہا“ کیا ہے، ب ”بُوہا“ پڑھتے ہوئے اُس کی آنکھوں کے سامنے ایک تصویر ابھرتی ہے جس سے وہ بخوبی آگاہ ہے جبکہ ”بُوہے“ کو ”دروازہ“ ثابت کرنے کیلئے اُسے خاصی کاوش کرنی پڑتی ہے، ذہن کی تختی پر ایک نئے لفظ کا اضافہ کرنا پڑتا ہے جس کی آواز کے ساتھ اُس کے حافظے اور خیال میں کسی شے کی تصویر نہیں بنتی۔ اس طرح دیکھیں تو وہ علم حاصل کرنے سے نہیں بھاگتا بلکہ نامانوس لفظوں سے بھاگتا ہے۔ مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کا بنیادی فائدہ یہ ہو گا کہ اپنے ماحول اور اپنی روایات کی بابت بہت سارا علم بچہ گھر سے لے کر اسکول میں جائے گا اور اساتذہ کو صرف اسے لکھنے اور پڑھنے کی تربیت دینی پڑے گی۔ تفہیم کے رستے پر رواں ہونے کے بعد دیگر زبانوں کے سیکھنے پر بھی اُسے آسانی سے مائل کیا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ ہر بچہ تین زبانیں سیکھنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس طرح مادری زبان کے ساتھ اُسے قومی اور عالمی زبان یعنی انگریزی بھی پڑھائی جاسکتی ہے لیکن مادری زبان کی تحصیل اور ترسیل کو بہرحال دوسری زبانوں پر فوقیت ملنی اور رہنی چاہئے۔
ہم اُس کم نصیب نسل کے نمائندے ہیں جن کو مصحفی، میر، آتش، سعدی، رومی،ورڈز ورتھ اور کیٹس تو پڑھایا گیا لیکن بابا فرید، خواجہ فرید، شاہ حسین، بُلھے شاہ، مست توکلی، رحمن بابا اور عبداللطیف بھٹائی سے جان بوجھ کر دور رکھا گیا۔ جن کا تعلق ہماری دھرتی سے تھا اور جن کے اشلوک اور بیت ہماری ماؤں کو زبانی یاد بھی تھے لیکن ہمیں اُنہیں Own کرنے سے روک دیا گیا کیوں کہ ان کا کام اور کلام جن زبانوں میں ہے ان تک ہماری رسائی ہی نہیں ہونے دی گئی۔ ہم نے ”کیکلی کلیر“ کی بجائے ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار اور بابا بابا بلیک شیپ ایسی نظمیں اپنے حافظے میں محفوظ کیں جن میں برفباری اور خزاں کے مناظر کی عکاسی تھی مگر ہمارے ساون اور بہار کے موسموں کی اُن میں کوئی جھلک نہیں تھی۔ جب میری زبان چھین کر میری دھرتی سے میرا واسطہ منقطع کر دیا گیا تو میرے کھیت، میرے موسم، میرے دریا،میری زمین اور میری گھٹائیں بھی میرے لئے اجنبی ہوگئے اور انہوں نے میرے ساتھ مکالمہ کرنا ترک کر دیا۔ میرے نصاب میں راوی ، چناب ، ستلج اور سندھ کی بجائے گنگا، جمنا، ٹیمز اور نیل کے تذکرے تھے۔ اس لئے جب مجھے راوی، چناب، ستلج اور سندھ سے جدا کیا گیا تو میرا دل بالکل بھی افسردہ نہ ہوا کیوں کہ مجھے اپنی تہذیب، اپنے ورثے، اپنے لوک دانش کے کھو جانے کا احساس ہی نہیں تھا۔ مجھے بدیسی زبانوں میں علم سکھا کر عالم بنانے والوں نے مجھے میرے بزرگوں کے اس سرمائے سے دور کر دیا جن میں ہزار سالہ لوک ورثہ اور لوک دانش کی لغات محفوظ تھیں اور انہیں ناخواندگی کا طعنہ دے کر مجھے گہرے احساسِ کمتری کے کرب میں مبتلا کر دیا گیا یوں مجھ سے وہ تفاخر چھین لیا گیا جو میرے ورثے کی معراج اور منفرد پہچان کا حامل تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک اُردو جسے قومی زبان ہونے کا شرف حاصل ہے وہ مختلف صوبوں کے افراد کو یگانگت اور قومی ہم آہنگی کی تسبیح میں پرونے میں کیوں ناکام رہی۔ شاید اس لئے کہ اُس کی جڑیں اس دھرتی میں موجود نہیں تھیں۔ اگر آج ہمیں ایک ہونا ہے تو نئے سرے سے تمام پاکستانی زبانوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں دل سے اپنانا اور پھلنے پھولنے کا موقع دینا ہوگا اور اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل کرتے ہوئے مادری زبان کو بنیادی تعلیم کا ذریعہ بنانا ہوگا۔ مادری زبانوں میں تعلیم کا حق تسلیم کرکے قلیل عرصے میں خواندگی کا سو فیصد معیار قائم کیا جاسکتا ہے اور آنے والی نسلوں کو اپنی زمین اور تہذیب سے جوڑ کر انہیں ایک باوقار قوم بنایا جاسکتا ہے۔ اس عرضداشت کا بنیادی محور قومی اور عالمی زبان سے کسی طرح کی مخاصمت یا مسابقت کی بجائے محض ماں بولی کو اُس کا حق دینا ہے جو عین فطری اور مبنی برانصاف ہے اور جس کے بغیر حقیقی شعور اور ترقی کی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ کی طرح پنجاب میں بھی پنجابی کو پرائمری سطح پر لازمی ذریعہٴ تعلیم بنایا جائے تاکہ یہاں کی موجودہ اور آنے والی نسل اس عظیم الشان ثقافتی ورثے کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو ڈھال سکے جو پنجابی زبان اور ثقافت کی اصل پہچان ہے اور جسے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عرصہٴ دراز سے بیگانگی کے لاکر میں بند کر دیا گیا ہے۔ شاید اسی طرح اس تاریخی مجرمانہ غفلت کا ازالہ ہو سکے جو پنجابی اشرافیہ اور حکمران طبقوں کی ملی بھگت سے پنجاب کا مقدر بنا دی گئی ہے۔
تازہ ترین