• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

علامہ اقبال کی زندگی سے متعلق اہم انکشافات

شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی شخصیت پر بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں، 1951ء میں شائع ہونے والی فقیر سیّد وحید الدّین کی کتاب ’’روزگارِ فقیر‘‘ میں علامہ اقبال کی عام زندگی سے متعلق اہم انکشافات پہلی بار منظر عام پر لائے گئے ہیں۔

مصنف فقیر سیّد وحید الدّین کے مطابق اُن کے والد، فقیر سیّد نجم الدّین، علّامہ اقبال کے خاص احباب میں شامل تھے، جب وہ علّامہ صاحب سے ملنے جاتے تو اکثر اپنے ساتھ مجھےبھی لے جاتے، میں اُس وقت کالج میں زیر تعلیم تھا۔

سیّد وحید الدّین اپنی کتاب میں علاّمہ سے متعلق لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال صاحب زیادہ تر خاموش رہتے تھے، جب بھی اُنہیں دیکھا کچھ نہ کچھ سوچتے ہوئے ہی پایا اور ایسا معلوم ہوتا کہ اُن کی نگاہیں اُفق کے اُس پار بلکہ فلک کی حد سے بھی آگے کسی چیز کو تلاش کر رہی ہیں۔

ڈاکٹر علامہ اقبال سے خود سے مخاطب ہونے کی کسی کی بھی جرات نہ ہوتی، ڈاکٹر صاحب خیالات میں گم چُپ چاپ بیٹھے رہتے تھے ، اگر گفتگو ہوتی بھی تو اس وقت کہ جب کسی نے کوئی بات پوچھی اور ڈاکٹر صاحب نے جواب میں ایک آدھ مختصر سا جملہ کہہ دیتےاور پھر خاموشی چھا جاتی۔

ڈاکٹر علامہ اقبال کی یہ خاموشی کی کیفیت ہمیشہ نہیں رہتی تھی، جب بحث و گفتگو کرتے تو مسلسل گھنٹوں باتیں کرتے چلے جاتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ خیالات کا ایک سیلاب ہے۔

ایک بار ’ ڈاکٹر صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ شعر کیسے کہتے ہیں؟‘ تو فرمایا ’جب مجھ پر شعر کہنے کی کیفیت طاری ہوتی ہے، تو یہ سمجھ لو کہ ایسا لگتا ہے جیسے ایک ماہی گیر نے مچھلیاں پکڑنے کے لیے جال ڈالا۔ مچھلیاں اس کثرت سے جال کی طرف کھنچی چلی آ رہی ہیں کہ ماہی گیر پریشان ہو گیا۔ سوچتا ہے کہ اتنی مچھلیوں میں سے کِسے پکڑوں اور کِسے چھوڑ دوں۔‘

علامہ صاحب اور اولاد کی خواہش

ڈاکٹر صاحب تیسری شادی کے بعد ایک مدّت تک اولاد سے محروم رہےاور مایوس ہو چُکے تو حضرت مجدّد الفِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ میں حاضر ہو کر دُعا کی کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں ایک بیٹا عطا کرے، جسے وہ اپنی زندگی میں اعلیٰ تعلیم دے سکیں، لیکن اس دعا کو بھی پانچ چھے برس گزر گئے تھے۔

ایک شام گھر گئےتو دیکھا کہ جاوید کی والدہطوطے کے بچّے کو اپنے پاس بٹھا کر بڑی شفقت سے پھل کِھلا رہی ہیں۔، یہ کیفیت دیکھ کر ڈاکٹر صاحب کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکل گئے، ’ الٰہی! اس خاتون میں مادرانہ شفقت پیدا ہو چُکی ہے، اب اسے اولاد بھی عطا فرما۔‘

اور اُن کی یہ دُعا قبول ہوئی اور اس واقع کے سال بعد جاوید پیدا ہوئے۔‘

لباس کے معاملے میں سادہ مزاج

فقیر سیّد وحید الدّین کا لکھنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب بس ضرورت کے مطابق کپڑے سِلواتے ، فالتو جوڑے نہ رکھتے تھے ، نئے نئے ڈیزائن کے کپڑے خریدنے کا بھی اُنہیں شوق نہیں تھا۔

جب کپڑے ختم ہو جاتے تو اپنے پرانے خدمت گزار علی بخش سے ذکر فرما دیتے، علی بخش ایک اَن پڑھ اور پُرانی وضع کا سیدھا سادہ ملازم تھا۔ وہ اپنی پسند کا کپڑا بازار سے جا کر خریدتا اور درزی کے سُپرد کر آتا یا کبھی اس درزی ہی سے کہہ دیا جاتا، جس کے پاس اُن کے ناپ موجود تھے، ڈاکٹر صاحب کسی کپڑے کی وضع قطع، تراش اور سِلائی پر کوئی اعتراض نہ کرتے اور نہ کسی قسم کی تنقید فرماتے۔

ڈاکٹر صاحب دھوتی اور بنیان ہی زیادہ تر پہنا کرتے تھے، گھر پر شلوار صرف سردیوں میں پہنتے۔ گرمیوں میں ہمیشہ 5گز کی کنی دار دھوتی کو دُہرا کر کے تہہ بند کی طرح باندھ لیتے۔ جاڑوں میں قمیص اور اُس پر دُھسا یا گرم چادر۔

ہر خاص و عام کے لیے یکساں رویہ

اُن سے ملنے جلنے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دنیا کا سب سے بڑا شاعر قیمتی صوفوں پر بیٹھتا تھا نہ اُس کا مکان دیدہ زیب فرنیچر سے آراستہ تھا اور نہ ہی اُس کے یہاں ایرانی قالین تھے۔ بالکل عام اور سادہ رہائش، ہر قسم کے تکلّف اور امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ سے یک سَر پاک۔ نوکروں اور دربانوں کی فوج، نہ ملاقات کے لیے رسمی پابندیاں۔

ملاقاتیوں کے بارے میں ڈاکٹر صاحب غریب و امیر اور جاہل و تعلیم یافتہ کا کوئی امتیاز روا نہ رکھتے تھے۔ ایک بار علامہ صاحب سے ملنے ایک دھوبی آیا، ڈاکٹر صاحب کا وفادار اور قدیم ملازم علی بخش دروازے پر کھڑا تھا۔

دھوبی کہنے لگا ’ مَیں ڈاکٹر اقبال کو دیکھنا چاہتا ہوں‘ ڈاکٹر صاحب بنیان اور دھوتی پہنے صحن میں حقّہ پی رہے تھے، علی بخش نے اشارے سے کہا ’یہ ہیں ڈاکٹر صاحب‘ دھوبی کو علی بخش کے کہنے کا یقین نہیں آیا، وہ آگے بڑھا اور ڈاکٹر صاحب کو گھر کا کوئی معمولی آدمی سمجھ کر اُن سے پوچھنے لگا ’ڈاکٹر اقبال کہاں ہیں، مَیں اُنہیں دیکھنا چاہتا ہوں‘ ڈاکٹر صاحب مُسکرائے اور کہا ’بھئی مَیں ہی ہوں۔ آئو بیٹھو‘ دھوبی سکتے میں آ گیا۔ اتنا سادہ اور بے نیاز، شہرت شہنشاہ جیسی، رہائش درویش جیسی۔

نوجوانوں کے نام صحت اور ورزش کا پیغام

علّامہ اقبال نوجوانوں کو ورزش کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ سیال کوٹ میں موجود تھے ، لعل دین پہلوان اُن سے ملنے کے لیے آئے۔ علّامہ نے اپنے بھتیجے، شیخ اعجاز احمد کو اُن کے سُپرد کیا اور روزانہ اکھاڑے جا کر کسرت کرنے کی تاکید کی۔

علّامہ صاحب اکثر فرمایا کرتے کہ’ جہاں تک ہو سکے، زندگی کو باقاعدہ اور سادہ بنانے کی کوشش کرو۔ کہا کرتے تھے جوانی کی توانائی سے فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ صحت دیر تک قائم رہے، جسمانی اور روحانی صحت کی ضامن مذہبی زندگی ہے۔‘

ڈاکٹر علّامہ صاحب نوجوانوں کو بزرگوں کی صحبت میں بھی بیٹھنے کی بہت تاکید فرمایا کرتے تھے، کہتے تھے کہ بزرگوں کی صحبت میں اکسیر کی تاثیر ہے۔

دیسی مسواک کا شوق اور تاکید

علّامہ اقبال سادہ اور اسلامی طرزِ زنداگی پسند فرماتے تھے، ایک بار گھر کی صفائی پر گفتگو کر رہے تھے، اُنہوں نے بتایا کہ اسلام نے صفائی پر کتنا زور دیا ہے۔ پھر دانتوں کی صفائی کے لیے مسواک کے فوائد کا ذکر کیا۔

کچھ عرصے بعد ایک خط میں شیخ اعجاز نے علّامہ صاحب سے دریافت کیا کہ’’ اب تو اچھے اچھے ولائتی بُرش ملتے ہیں، کیا وہ مسواک کا نعم البدل نہیں؟‘‘ علّامہ نے لکھا ’مسواک سے مُراد دیسی مسواک تھی،نہ کہ انگریزی طرز کے منجن اور بُرش۔ ‘

علامہ اقبال کا ما ننا تھا کہ یورپ کی بنی بعض چیزیں خُوب صُورت ضرور ہوتی ہیں مگر اُن میں اخلاقی زہر ہوتا ہے، جس کا اثر آج کل کے مادہ پرست مزاج رکھنے والے انسان فوراً محسوس نہیں کر سکتے۔ لاہور میں اُن کے غسل خانے میں ایک دیسی مسواک ہمیشہ ہوتی تھی۔

ڈاکٹر الامہ اقبال صرف 2 وقت کا کھانا کھاتے تھے

عمر ڈھلنے کے بعد کے بعد ڈاکٹر صاحب کو عمدہ قسم کے کھانوں اور زبان کے چٹخاروں سے کوئی دِل چسپی نہیں رہی تھی۔ علی بخش اُن کے لیے ایک سالن اور دو پھلکے پکا دیتا۔ وہ عام طور پر دوپہر کو کھانا کھاتے، رات کے کھانے کا ناغہ کرتے، لیکن جس دن اتفاق سے دوپہر کا کھانا نہ کھاتے، اُس دن رات کا تناول فرماتے۔ اُن کا دن رات میں ایک بار کھانا کھانے کا معمول ایک دو سال نہیں، کم و بیش 25سال قائم رہا۔

رات کو عموماً دودھ پی لیا کرتے تھے، بعد میں یہ معمول بھی ختم ہو گیا۔

علامہ صاحب کے پسندیدہ ترین پھل

علامہ صاحب انگور، آم اور خربوزے بڑے شوق سے کھاتے تھے مگر کبھی ان کی خرویدو فروخت نہیں کی تھی، جب حکیم نابینا نے گلے کی تکلیف میں اُن کے لیے سَردہ تجویز کیا، تو حکومتِ افغانستان کی جانب سے اُنہیں سَردے بھیجے جاتے، اکبر الٰہ آبادی اُنہیں آم بھیجتے تھے۔

حقّ علامہ صاحب کی زندگی کا بہترین ساتھی

مصنف لکھتے ہیں کہ کبھی بھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ وہ تو موجود ہوں اور حقّہ اُن کے پاس نہ ہو۔ علی بخش کو بھی سب سے زیادہ اُن کے حقّے کا خیال رکھنا پڑتا تھا، جب کسی دوست کے ہاں تشریف لے جاتے، تو اُن کی سب سے بڑی تواضع یہی سمجھی جاتی اور میزبان سب سے پہلے اسی کی فکر میں رہتا۔

تازہ ترین
تازہ ترین