• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیلسن منڈیلا نے سچ کہا تھا ”سیاستدان صرف اگلے الیکشن کے بارے میں سوچتے ہیں مگر لیڈر اگلی نسل کا مستقبل سنوارنے کی فکر کرتا ہے“ پاکستان میں کوئی لیڈر ہوتا تو گزشتہ ماہ 118 لاشیں گرنے پر ہزارہ برادری کا مطالبہ مان کر زخموں پر مرہم رکھتا مزید 91 لاشیں گرنے کا انتظار نہ کرتا۔ حکمرانوں اور اُن کی سوچ سے متفق سیاستدانوں نے ثابت کیا کہ انہیں صرف اگلے الیکشن کی فکر ہے ریاست اور عوام اپنی فکر خود کریں یا بے فکر ہو کر تباہی کا انتظار کریں۔
اسی بے نیازی، بے حسی، نالائقی ، محدود سوچ اور سنگدلانہ رویوں کی بنا پر منتخب حکومت سے کوئٹہ اور کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ ہوتا ہے۔ ہر فوجی مداخلت پر مٹھائی بٹتی اور لوگ سکھ کا سانس لیتے ہیں، منتخب حکومت کو پانچ سال گزرے ہیں مگر فوج پر اعتماد کرنے والوں کا تناسب 82فیصد ہو گیا ہے۔ کیوں؟ پاکستان میں رائج بدترین جمہوریت عوام کو امن و امان، جان و مال کے تحفظ، معاشی آسودگی، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع سے محروم رکھتی اور آخر میں بدترین فوجی مداخلت کی راہ ہموار کرتی ہے۔ جمہوریت کو لمحہ موجود کا بہتر نظام سمجھنے والے لوگ بدترین جمہوریت کی جگہ دنیا بھر میں ثمر بار بہترین جمہوریت کی آرزو کریں تو انہیں باور کرایا جاتا ہے کہ یہ سازش ہے بس کیکر کے درخت قطار اندر قطار لگاتے جائیں ،ببول کے کانٹے ہاتھوں اور پلکوں سے چنتے رہیں بالآخر آم، انگور اور سنگترے کے خوش ذائقہ پھل ٹپک پڑیں گے۔ 1971ء سے 1977ء ، 1988 سے 1999ء اور 2008 سے 2013ء تک قوم کو چمن کی رنگ و بو نے یہی دھوکہ دیا، اس نے ذوق گل بوسی میں کانٹوں پر زبان رکھ دی اور اب تک زخموں کو سہلا رہی ہے۔
بجا کہ انتہا پسند فرقہ وارانہ اور لسانی و نسلی تنظیموں نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں جنم لیا، جنرل پرویز مشرف نے امریکی جنگ میں شرکت کا فیصلہ کر کے پاکستان میں دہشت گردی کی آگ سلگائی مگر ضیاء کے جانشین سیاسی حکمرانوں اور پرویز مشرف کے بعد پانچ سال تک حکمرانی کے مزے لوٹنے، قومی وسائل اور اداروں کی لوٹ مار میں عالمی ریکارڈ قائم کرنے والوں نے یہ پالیسیاں تبدیل کرنے کی کوئی شعوری کوشش کیوں نہ کی؟ بلوچستان میں فوجی آپریشن بھی بھٹو دور میں ہوا تھا جس کی تلخیوں کے سبب بلوچ قیادت سیاسی حکمرانوں پر اعتبار نہیں کرتی۔
طالبان کو اپنے بچے قرار دینے اور فرقہ وارانہ تنظیموں کو کابینہ میں شامل کرنے کا جرم کس نے کیا؟ کشمیر اور افغانستان کے جہاد میں حصہ لینے والوں کو فوج، پولیس اور دیگر اداروں میں شامل کرنے کے بجائے اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا موقع کس نے فراہم کیا اور پرویز مشرف کی ننگ ملت ، ننگ دیں، ننگ وطن پالیسیاں اب تک کیوں جاری ہیں؟ یہ بھی فوجی ڈکٹیٹروں کا قصور ہے؟
پراکسی وار کو روکنا، آلہ کاروں کو پکڑ کر عبرتناک سزائیں دینا اور مقدس مذہبی مقامات، عبادت گاہوں کا تحفظ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور ریاستی اداروں کی کارگزاری بہتر بنانا بھی اس کا فرض مگر وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے تو فوج اور خفیہ ایجنسیوں کا کیا قصور؟ جنرل ضیاء الحق قبر اور پرویز مشرف لندن سے آ کر تو دہشت گردوں کا ہاتھ روکنے سے رہے ۔ الزام تراشی اور حیلہ جوئی حکمرانی کا جواز اور عوامی نمائندگی کا تقاضا نہیں ، کم ہمتی اور نالائقی کا اظہار ضرور ہے۔
بدترین جمہوریت کو بہترین جمہوریت میں بدلنے کے لئے چند ہفتے قبل انتخابی اصلاحات اور آئین کی دفعات 62،63 پر عملدرآمد کا مطالبہ ہوا، عوام میں جوش و خروش نظر آیا اور الیکشن کمیشن نے بھی جھرجھری لی تو سارے سیاسی و مذہبی رہنما یکجان دو قالب بن کر اس عوامی خواہش کے سامنے ڈٹ گئے۔ یہ شور مچا دیا کہ انتخابی عمل سے بدکردار، جرائم پیشہ، اخلاق باختہ اور مذہبی شعائر کا مذاق اڑانے والے الیکٹ ایبلز کا اخراج جمہوریت دشمنی ہے یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔ ذات برادری، خاندان، فرقے اور زبان و نسل کے بت ڈھے گئے تو انتخابی عمل کی ساکھ متاثر ہو گی مگر جب دو بار ہزارہ برادری پر قیامت گزری، کراچی میں روزانہ درجنوں گھروں میں ماتم برپا ہوتا ہے تو کسی کو اے پی سی بلانے، غمزدہ خاندانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے اور فرقہ واریت و دہشت گردی کے عفریت کا مل جل کر مقابلہ کرنے کی تدبیر نہیں سوجھتی۔ نگران حکومتوں کی تشکیل ، لوٹوں کو گلے لگانے اور کوئٹہ جیسے سنگین واقعات کو فوج و خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے الیکشن ملتوی کرانے کی سازش قرار دینے کے لئے سب باؤلے ہو رہے ہیں۔ بیان بازی خوب ہو رہی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت الیکشن یا التوائے الیکشن کام آئے۔
پانی اب سر سے گزرنے لگا ہے۔ عوام کی حالت بقول شاعر #
سر گزشت ِ من چہ می پرسی، چہ گویم سر گزشت
موئے سر از پا گزشت و خارِ پا از سرگزشت
عوام کو جان و مال کے تحفظ، روزگار اور زندگی کی سہولتوں سے محروم رکھنے والی حکومتیں اپنا آئینی، قانونی، اخلاقی اور سیاسی جواز کھو چکیں۔ کراچی اور کوئٹہ کے عوام فوج بلانے کا مطالبہ اسی بنا پر کرتے ہیں۔ حکمرانوں کے ذہنی دیوالیہ پن کا یہ عالم ہے کہ وہ دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کے ساتھ سختی سے نمٹتے ہیں نہ کسی اور کو اجازت دیتے ہیں۔ پاکستان کو غیر مستحکم بلکہ ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے عالمی و علاقائی سازشیں عروج پر ہیں۔ عام انتخابات کے دوران بلوچستان میں علیحدگی پسندی کے نعرے کی مقبولیت اور 5فیصد ٹرن آؤٹ کا خطرہ ہے۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بھی دہشت گردی کے بڑے واقعات خارج از امکان نہیں مگر سیاستدانوں کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔
ریاستی مشینری کمزور، سیاسی قیادت مستقبل بینی سے محروم اور مفاد پرستی کے موذی مرض میں مبتلا ہو تو صورتحال یوں ہی بگڑتی ہے جس طرح تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ ایٹمی ریاست کمزور معیشت، انتشار، لاقانونیت اور عوامی مایوسی کا بوجھ زیادہ عرصہ سہار نہیں سکتی مگر ہمارے سیاستدانوں کو مدت پوری کرنے اور اگلے الیکشن میں ہر صورت کامیابی کی فکر ہے۔ کسی کو اگلی نسلوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہے نہ پاکستان پر ناکام ریاست کا لیبل لگنے کے مضمرات کا اندازہ۔ سب حال مست ہیں یا مال مست۔ تبھی لوگ تبدیلی کے خواہش مند ہیں تاکہ اقبال و قائد کے پاکستان کی جان موقع پرست سیاستدانوں سے چھوٹے۔ کوئی لیڈر اگلی نسل کی فکر کرے اور پاکستان کے طول و عرض میں دوبارہ دھرنوں کی نوبت نہ آئے۔
تازہ ترین